سری نگر:۳۲،دسمبر: : جموں وکشمیرمیں دفعہ 370کی منسوخی اور سابقہ ریاست کو دوحصوں میں تقسیم کرکے اسے یونین ٹریٹری بنائے جانے کے بعدیہاںاوپن میرٹ اُمیدواروں کے کوٹے میں کمی اورمختلف کمزور اوردرجہ فہرست قبائل کے کوٹے میں اضافے کے قضئے نے پیر کو اسوقت ایک نیاموڈ لیاجب حکمران جماعت نیشنل کانفرنس سے وابستہ ممبر پارلیمنٹ آغاروح اللہ نے ممبران اسمبلی وحیدالرحمان پرہ ،شیخ خورشید ،التجاءمفتی اوردیگر اپوزیشن لیڈروں وکارکنوں کے ہمراہ درجنوں طلباءاور طالبات کی جانب سے یہاں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی رہائش گاہ کے باہر زوردار احتجاج کی قیادت کرتے ہوئے گزشتہ کچھ برسوں سے ریزرویشن پالیسی پر نظرثانی کا مطالبہ کیا۔اس دوران ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے کہا کہ طلباءکا ایک وفد وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات پیش کرے گا۔واضح رہے وزیراعلیٰ نے اتوار کو کہاتھاکہ پُرامن احتجاج ہرکسی کا جمہوری حق ہے ۔انہوںنے یہ بھی کہاکہ ریزرویشن پالیسی کا منصفانہ جائزہ لینے کیلئے کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ،جو تمام متعلقین کیساتھ مشاورت کرے گی ۔جے کے این ایس کے مطابق نیشنل کانفرنس کے ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ، پی ڈی پی ممبراسمبلی وحید الرحمان پرہ ،اے آئی پی ممبراسمبلی شیخ خورشید ،پی ڈی پی لیڈرالتجا مفتی اور اپوزیشن لیڈروں وکارکنوں کے ہمراہ درجنوں طلباءاور طالبات کی جانب سے یہاں وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی رہائش گاہ کے باہر زوردار احتجاج کی قیادت کی ۔احتجاج میں شامل افرادنے ہاتھوں میں پلے کارڈس اُٹھارکھے تھے ،جن پر ریزرویشن پالیسی کیخلاف نعرے لکھے ہوئے تھے اوراس پر نظرثانی کا مطالبہ بھی لکھاہوا تھا ۔بڑی تعدادمیں احتجاجی طلباءاور طالبات سیاسی لیڈروںکی قیادت میں وزیراعلیٰ ہاﺅس کے باہر جمع ہوئے اورانہوںنے ریزرویشن پالیسی کیخلاف نعرے بازی کرتے ہوئے الزام لگایاکہ یہ جموں وکشمیر کی زیادہ ترآبادی سے تعلق رکھنے والے طلبہ اورنوجوانوں کیساتھ سراسر زیادتی ہے ،کیونکہ اب پیشہ ورانہ کورسز اور ملازمتوں کیلئے اوپن میرٹ کاکوٹا کافی کم کردیاگیاہے ۔ ممبر پارلیمنٹ آغاروح اللہ نے ریزرویشن پالیسی کی مبینہ ناانصافی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ کی طرف ایک احتجاجی مارچ کرتے ہوئے آبادی کے تمام طبقوں کے لیے مساوی فوائد کو یقینی بنانے کے لیے ایک عقلی انداز اختیار کرنے پر زور دیا۔ اس احتجاج کو بڑے پیمانے پر توجہ حاصل ہوئی کیونکہ اس نے سیاسی رہنماو ¿ں اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے اطمینانی کو اجاگر کیا۔خاص طور پر، تنازعہ اس سال کے شروع میں لیفٹیننٹ گورنر کی زیرقیادت انتظامیہ کی طرف سے متعارف کرائی گئی پالیسی سے پیدا ہوا ہے۔نئی ریزرویشن پالیسی نے آبادی کی اکثریت بنانے کے باوجود جنرل زمرے کا حصہ40 تک کم کر دیا، جبکہ محفوظ زمروں کا حصہ بڑھا کر60 کر دیا۔اس تبدیلی نے طلبہ کی انجمنوں، سیاسی رہنماو ¿ں اور مختلف تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر تنقید کو جنم دیا ہے، سبھی نے اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر احتجاج کے درمیان ممبر پارلیمنٹ آغا روح اللہ نے کہا کہ طلباءکا ایک وفد وزیر اعلیٰ سے ملاقات کر کے اپنے مطالبات پیش کرے گا۔احتجاجی مقام پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے روح اللہ نے کہا کہ انہیں وزیراعلیٰ ہاو ¿س کے اندر سے اطلاع ملی کہ طلباءکا وفد بھیجا جائے جو وزیراعلیٰ سے ملاقات کرے گا۔انہوں نے کہا کہ وہ چیف منسٹر سے ملاقات کے لئے پانچ طلباءکو وسطی، جنوبی اور شمالی کشمیر سے ایک، ایک جموں اور ایک طالبہ کا انتخاب کرتے ہیں۔روح اللہ نے کہا کہ وفد اپنے مطالبات پیش کرے گا اور اس معاملے پر وزیر اعلیٰ سے بات کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہاں سے اس وقت تک نہیں ہٹیں گے جب تک طلباءوزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بعد باہر نہیں آتے۔پی ڈی پی کے قانون ساز وحید الرحمان پرہ نے کہا کہ وہ پالیسی کو وقتی طور پر منسوخ کرنا چاہتے ہیں اور میرٹ ہولڈرز کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔