سرینگر:۵۱،اپریل: : جموں و کشمیر میں حزب اختلاف کے قانون سازوں اور جماعتوں کی تنقید کے درمیان، وزیر اعلی عمر عبداللہ نے منگل کو قانون ساز اسمبلی میں اراکین کے ذریعہ لائے گئے وقف ترمیمی بل پر تحریک التوا کو غلط کارروائی قرار دیا۔جے کے این ایس کے مطابق صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ا سپیکر نے اجلاس کے آخری روز سب کچھ واضح کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ اراکین کی طرف سے لائی گئی تحریک التواءایک نامناسب اقدام تھا کیونکہ اس تحریک کا مقصد مقامی حکومت کے اقدام کا مقابلہ کرنا ہے، تاہم اگر قرارداد کو مختلف انداز میں پیش کیا جاتا تو نتیجہ مختلف ہو سکتا تھا۔وزیراعلیٰ عمرعبداللہ نے مزید کہا کہ پارٹی نے اب اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور آئیے عدالت کے جواب کا انتظار کرتے ہیں۔ریاستی حیثیت کی بحالی کے بارے میں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ اس کی بحالی کا مناسب وقت آگیا ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں انتخابات ہوئے چھ ماہ گزر چکے ہیں۔تاہم انہوں نے کہا کہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے جموں و کشمیر کے حالیہ دورے کے دوران انہوں نے لیڈر سے الگ ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ ریاست جلد ہی بحال ہو جائے گی۔اس دوران وزیراعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی نے کہاکہ نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی کی طرح بھاجپا کیساتھ اتحادکی غلطی نہیں دہرائے گی۔نیشنل کانفرنس کے رہنما اور وزیر اعلیٰ کے مشیر، ناصر اسلم وانی نے نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے اپنی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان کسی بھی طرح کی صف بندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کسی بھی معاملے میں ایک صفحے پر نہیں ہیں۔جب این سی اور بی جے پی کے درمیان کسی مشترکہ مفاہمت کے بارے میں پوچھا گیا تو،ناصراسلم وانی نے واضح کیاکہ ہم پی ڈی پی کی غلطی کو نہیں دہرائیں گے۔انہوںنے کہاکہ ہمارے اور بی جے پی کے درمیان کوئی مشترکہ بنیاد نہیں ہے۔ پی ڈی پی پر طنز کرتے ہوئے،ناصراسلم وانی نے مزید کہا کہ پارٹی کو این سی پر تنقید کرنے کے بجائے اس کے ماضی کے اقدامات اور اس کے دور میں کیے گئے سیاسی فیصلوں کا خود جائزہ لینا چاہیے۔ متنازعہ وقف بل پر تبصرہ کرتے ہوئے،ناصر وانی نے اس اقدام پر سخت تنقید کی اور اسے ہمارے مذہب پر حملہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ دیگر تنظیموں کی طرح ہم نے بھی سپریم کورٹ میں پٹیشن جمع کرائی ہے، یہ ناانصافی ہے، مذہبی معاملات میں واضح مداخلت ہے۔
مرکزی حکومت کے اقدامات پر تحریک التوائ
صرف لوک سبھا میں لائی جا سکتی ہے