مضمون نگار:ڈاکٹررافد اویس بٹ
ہر معاشرے کے معیارِ زندگی اور کیفیتِ حیات کا انحصاراُس کی نسلِ نوع پر ہوتی ہے۔ بہ لفظ دیگر یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر ہمیں کسی بھی معاشرے کی کامیابی یا ناکامیابی کا اندازہ لگانا مقصود ہو تولازم ہے کہ اُس معاشرے کی نئی نسل کی فکری و عملی رویوں پر ارتکاز کیا کریں۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نسل نو ہی معاشرے کی کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کے دانش ور، مفکر اور مصلح؛ جن کے علم، عقل اور تجربے و مشاہدے کی بنیاد پر ہمارے معاشرے کا "آج” تابناک ہے؛ کے برخلاف نسل نو ہی کو معاشرے کی فلاح، کامرانی اور کامیابی کی ضمانت کیوں قرار دیا جاتا ہے۔؟ تاریخ کے اوراق اُلٹیے تو وہاں بھی یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہمارے مفکروں، دانش وروں اور مصلحین نے بھی نسل نو ہی کو معاشرے کی کامیابی میں مرکزیت عطا کی ہے۔ درحقیقت کسی بھی معاشرے کو آگے لے جانے میں تین قوتیں درکار ہوتی ہیں۔ قوتِ علم و آگہی، قوتِ عمل یا قوت حرکیہ اور قوتِ ادراک۔ کسی بھی معاشرے کو آگے لے جانے میں علم بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ علم ہی فکری و نظری جڑوں کو ایسی غذا فراہم کرتا ہے جس سے انسان سب سے پہلے اپنے آپ سے متعارف ہوجاتا ہے۔ قوت عمل ہی سے بہ قول اقبال ستاروں پر کمندیں ڈالنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی طرح فکری و ذہنی صلاحیتوں کو ایک مثبت سمت عطا کرنے میں قوت ادراک بنیادی کردار ادا کرسکتی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور ترقی میں نئی نسل کا کیا کردار ہے۔؟ اس کے لیے بھی اگر ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو خوب اندازہ ہوگا کہ معاشرے کی تشکیل و تعمیر اور ترقی و ترویج اور ہر سطح پر اُسے ایک نئے سمت دینے میں نسل نو کا کردار اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہاں بھی وہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ نئی نسل کے فکری و ذہنی رویے ہی سے معاشرے کے مستقبل کا تئین کیا جاسکتا ہے۔
معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں نئی نسل کی ذمہ داریوں کے پیش نظر اگر تھوڑی دیر کے لیے ذہن پر زور ڈالا جائے تو وادی کشمیر کی ایک ایسی تصویر ہماری آنکھوں کے سامنے گھومتی ہوئی نظر آئے گی جسے کوئی بھی شخص دیکھنا پسند نہیں کرے گا۔ معاف کیجیے گا کشمیر کے تناظر سے یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ شاید ہی کوئی ایسی منفی قوت ہو جس نے پوری وادی کو اپنی لپیٹ میں نہ لیا ہو۔ مذہبی منافرت، گھریلو تشدد، قتل وغارت، فرقہ وارانہ غیر ہم آہنگی، بغض و عناد، جعل سازی، بد دیانتی، مکرو فریب اورعدم تحفظ غرض ہر طرح کی منفی قوت موجود ہے جو پورے معاشرے کو اندھیرے میں دھکیلنے کے لیے کافی ہے۔ ہر کس و ناکس اس پریشانی میں مبتلا نظر آتا ہے کہ وادی کشمیر کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ گویا ہر کوئی واقعی معاشرے کے دگرگوں حالات سے پریشان ہوکر مستقبل کے تئیں فکر مند ہے؛ لیکن جب اس پریشانی کی حقیقت جاننے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ ہر کوئی فکر مند ہونے کی صرف "اداکاری” کرتا ہے۔ بہر کیف ہمارا موضوع نئی نسل ہے؛ لہٰذا اسی موضوع پر ارتکاز کرتے ہوئے نئی نسل کے فکری رویوں کی کی تشکیل کے عوامل و محرکات جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کے دور میں جدید ٹیکنالوجی سے فائدہ اُٹھانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ لاکھ کوشش کے باوجود بھی ہم ٹیکنالوجی سے بھاگ نہیں سکتے ہیں۔ کیوں کہ جدید ٹیکنالوجی ہماری زندگی میں اس قدر سرایت کر چکی ہے کہ اب اس کے بغیر زندگی کا تصور لایعنی معلوم ہوتا ہے۔ فی الوقت میں چھوٹے بچوں کی بات نہیں کروں گا؛ کیوں کہ وہ ایک الگ موضوع ہے۔ اگر ہم نوجوان نسل کی بات کریں، وہ ایک ایسے ڈیجی ٹل دلدل میں پھنس چکی ہے جہاں سے نکلنا اب تقریباً ناممکن لگ رہا ہے۔ سب سے پہلی بات میں یہ عرض کردوں کہ ڈیجی ٹل کی دنیا اب محض وقت گزاری اور تفریح و تفنن کا مرکز نہیں ہے؛ بلکہ اب اس جادوئی دنیا سے پیسے بھی خوب کمائے جارہے ہیں۔ ہمارے سامنے کئی مثالیں پڑیں ہیں جنھوں نے شہرت کے ساتھ ساتھ ڈیجی ٹل دنیا سے موٹی رقم وصول کرکے کروڑ پتی بن گئے ہیں۔ اس طرح کے مواقعے جب ایک ایسے خطے میں دستیاب ہوں گے جہاں پہلے ہی سے بے روزگاری اپنا ڈیرا جمائے بیٹھی ہو؛ تو یقیناً نوجوان نسل اُسی طرف راغب ہوں گی۔ اس معاملے میں وادی کشمیر کی نوجوان نسل بھی کچھ پیچھے نہیں ہے۔ وہ بھی فیس بک اور یو ٹیوب سے راتوں رات امیر بننے کے نہ صرف خواب دیکھ رہی ہے بلکہ دن رات ایڑی چوٹی کا زور لگائے ایک دوسرے کو پچھاڑنے میں مصروف ہیں۔ یہاں اُن سے کوئی اختلاف نہیں ہے اور نہ ہی گنجائش ہے۔ کسی نے اپنا چینل بناکر آئے دن رونما ہونے والے حالات و واقعات پر مزاحیہ ڈرامے بنانے شروع کیے، کسی نے روز مرہ کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرنا شروع کیا، کوئی وائرل ہونے والی ویڈیوز کی مزید تشہیر کرکے ویورشپ بڑھانے کی کوشش کرتا ہے تو کوئی مختلف آن لائن ویب گاہوں سے ضرورت کی مختلف اشیا خرید کر اُس پر اپنا ریویو دے دیتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کا ایک طبقہ وی لاگنگ/ویڈیو لاگنگ میں اپنی قسمت آزما رہا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر کسی سے کوئی اختلاف نہیں ہے؛ لیکن معاشرے کا ایک فرد ہونے کی حیثیت سے معاشرے کی بہتر تشکیل و تعمیر میں اپنی رائے رکھنے کا حق ضرور رکھتا ہوں۔ دیکھیے! وی لاگنگ کوئی شجر ممنوعہ نہیں ہے۔ ہمارے سامنے کئی ایسے وی لاگئرس کی مثالیں ہیں جو اپنے خطے سے جڑی چیزوں کو فروغ دینے کی کامیاب کوششیں کرتے ہیں۔ کچھ وی لاگئرس سفر کرکے ایسی جگہوں سے واقف کراتے ہیں جہاں ہر کوئی پہنچ نہیں سکتا ہے، کچھ وی لاگئرس ایسے بھی ہیں جو ہمیں مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے واقف کراتے ہیں؛ جن کا ذکر کتابوں میں بھی نہیں ملتا ہے۔ اسی طرح کوئی وی لاگر مشہور جگہوں کے کھان پان اور اُن کے بنانے کے طریقوں سے واقف کراتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وی لاگنگ کو ایک مقصدیت کے تحت استعمال کرنا ہماعے معاشرے کے تئیں سود مند ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن جب ہم وادی کشمیر کے وی لاگئرس کی وی لاگنگ پر نظر دوڑاتے ہیں تو دیکھنے والے کے چاروں طبق روش ہوجاتے ہیں۔ ہمارے یہاں وی لاگنگ کا تصور ہی اُلٹا ہے؛ چلو مان لیتے ہیں کہ وی لاگنگ کی ایک قسم روزمرہ زندگی پر مشتمل ہے؛ لیکن اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ صبح سویرے سے رات سونے تک ہر لمحے سے ناظرین کو واقف کرایا جائے۔ ہمارے یہاں وی لاگئرس صبح سویرے کمیرہ سیٹ کرکے نیند سے جاگنے کی اداکاری کرتے ہیں؛ گویا اُنھیں پتا ہی نہیں کمیرہ لگا ہوا ہے۔ خیر وہ تو انسان کسی طرح ہضم کر ہی لیتا ہے؛ لیکن اُس کے بعد اصل تماشا شروع ہوجاتا ہے۔ ہر ایک وی لاگر کی ویڈیو اس بات سے شروع ہوجاتی ہے کہ دیکھتے ہیں آگے کیا ہونے والا ہے۔ یعنی اُنھیں اس بات تک کا علم نہیں ہوتا ہے کہ اُن کو کرنا کیا ہے اور ناظرین کو دکھانا کیا ہے۔ کوئی بازار سے میگی لا کے بناکر کھائے گا، کوئی اُلبتے ہوئے انڈوں کو دکھا رہا ہوتا ہے، کوئی اپنی بائیک کو دھلواتا ہے، کوئی پنکچر بنوانے جاتا ہے، کوئی سبزی خریدنے جاتا ہے، کوئی مرغے مرغیوں کو دانہ ڈالتا ہوا نظر آتا ہے۔ کوئی اپنے طوطے سے پریشان کہ وہ دانہ نہیں کھاتا ہے؛ اس ضمن میں وہ ناظرین کو بھی پریشان دیکھنا چاہتا ہے، کوئی اپنی ذاتی زندگی کو فخریہ انداز سے ساجھا کرتا ہے۔ کیا ایسے وی لاگئرس نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ وہ اپنے ناظرین کو کیا دے رہے ہیں۔؟ ایسے وی لاگئرس کا جواب زیادہ سے زیادہ یہ ہوسکتا ہے کہ بھئی ہم اپنے ناظرین کو تفریح و تفنن کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ کیا ڈیجی ٹل دنیا میں تفریح و تفنن کے ذرائع کی کوئی کمی ہے۔؟ کیا وی لاگنگ کو ثمر آور مقصد کے تحت انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔؟ دیکھیے! روز مرہ زندگی سے اگر ناظرین کو واقف کرانا ہی ہے، تو کیا اسے کوئی ایسی سمت نہیں دی جاسکتی ہے جس سے ناظرین محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ حاصل بھی کرلیں۔؟ زندگی سے متعلق کچھ "دلچسپ واقعات” ناظرین کے ساتھ ساجھا کیا جاسکتا ہے۔ آپ اپنی زندگی کے مختلف چیلنجز کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔ اگر چہ روزمرہ وی لاگنگ میں پہلے ہی سے کچھ طے نہیں ہوتا ہے؛ لیکن اس کے باوجود چند ایک چیزیں ضرور طے ہونی چاہیے؛ مثال کے طور پر آپ کہاں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں، کس مقصد کے تحت جارہے ہیں، اگر کہیں جانے کا ارادہ نہیں ہے تو اُسی نوعیت سے وی لاگنگ کی تیاری ہونی چاہیے۔ شاز ہی کوئی وی لاگر کشمیر کی تہذیب و ثقافت کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے، کوئی کشمیری زبان کے تحفظ کے لیے وی لاگنگ نہیں کرتا ہے، کوئی ہمارے اطراف و اکناف کے ماحول کے تحفظ کے لیے وی لاگنگ نہیں کرتا ہے، صحت اور تندرستی پر مشتمل جانکاری کو وی لاگنگ کے لیے کوئی استعمال نہیں کرتا ہے، ٹیکنالوجی کے مختلف طریق ہائے استعمال کو وی لاگنگ کا موضوع نہیں بنایا جاتا ہے۔ کیا ایسا ممکن نہیں ہے کہ کشمیری زبان سے نئی نسل کو آگاہ کیا جاسکے۔ غرض وی لاگنگ کو ایک صحیح سمت دے کر بہترین مقصد کو انجام دینے کے لیے اس کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے یہاں ایک وی لاگر ایسے بھی ہیں جو کشمیری ثقافت سے جڑی ایسی اشیا کی جانکاری فراہم کرتے ہیں جن سے آج کی نئی نسل نامانوس ہے۔ ہر وی لاگر کے ذہن میں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ اُن کے ناظرین میں کم عمر بچے بھی شامل ہیں؛ جن کی فکری نشو ونما کی ذمہ داری نہ صرف اُن کے والدین پر بلکہ سماج کے ہر اُس فرد پر عائد ہوتی ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ وی لاگئرس اگر چہ کسی نجی مقصد کے تحت وی لاگنگ کرتے ہیں؛ لیکن درپردہ وہ نئی نسل کی فکری نشو و نما میں بھی اپنا حصہ ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا اُنھیں اس بات کا بھی احساس ہونا لازم ہے کہ کہیں وہ آنے والی نسل کی فکری صلاحیتوں کا گلا تو نہیں گھونٹ رہے ہیں، کہیں اُن کے ذہن کو کسی ایک چیز تک محدود کرکے اُنھیں ذہنی طور اپاہج تو نہیں بنا رہے ہیں۔ معاشرے کے ایک ذمہ دار فرد کے ناطے اُن کا فرض ہے کہ وہ آنے والی نسل کی ذہن سازی کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔ کیوں کہ اُن کی ہر ایک حرکت دیکھی جاتی ہے، اُن کی ہر ایک بات سنی جاتی ہے اور جو کچھ وہ دکھاتے ہیں؛ اُسے دیکھا جاتا ہے۔ لہٰذا اب یہ وی لاگر پر منحصر ہے کہ وہ کس نوعیت کی جانکاری فراہم کرتا ہے، کس چیز کو ترغیب دیتا ہے، کیسا طرز تکلم اختیار کرتا ہے، کس طرح کی زبان اور لفظیات کا استعمال کرتا ہے، وی لاگنگ کے دوران بچوں اور بڑوں کے ساتھ اُس کا رویہ کیسا ہوتا ہے وغیرہ۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نئی نسل کی ذہن سازی یا اُن کی فکری نشو ونما کی ذمہ داری صرف وی لاگئرس پر عائد ہوتی ہے۔؟ یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ البتہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ جب کوئی شخص Public Figure بن جاتا ہے تو اُس کی روزمرہ زندگی کوعوامی مقبولیت حاصل ہوجاتی ہے۔ عوامی مقبولیت میں مثالی شخصیت بننے کے امکانات قومی ہوتے ہیں۔ جس کے لیے محتاط اور سنجیدہ رہنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ یعنی ہر وقت اس بات کا احساس رہے کہ اگر معاشرے نے آپ کو مقبولیت عطا کی ہے تو بدلے میں آپ معاشرے کو کیا دے رہے ہیں۔ اب اگر کسی کو اس بات سے انکار ہے کہ وہ اپنے آپ کو Public Figure نہیں سمجھتا ہے؛ تو مجھے بتائیں کہ جب آپ کو کسی مجمعے میں بہ حیثیت Motivational Speaker بلایا جاتا ہے، اُس وقت آپ انکار کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار کیوں نہیں دیتے ہیں۔ بہر کیف کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وی لاگنگ سے کوئی اختلاف نہیں ہے؛ البتہ وی لاگنگ کو ایک بہترین سمت دے کر وی لاگئرس آنے والی نسل کی فکری نشو ونما میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔