شیخ افلاق حسین
معراج کے معنی اوپر چڑھنے کے ہیں چونکہ آپﷺ نے اپنے ایک آسمانی سفر کے بارے میں یہ لفظ استعمال فرمایا ہے، اس لیے آپﷺ کے اس سفر کو جو آپﷺ نے آسمانوں کا کیا، معراج کہتے ہیں۔ اس کا دوسرا نام اسراء بھی ہے۔ اسراء راتوں رات سفر کرنے کو کہتے ہیں، چونکہ یہ سفر راتوں رات ہوا تھا، اس لیے اسے اسراء بھی کہتے ہیں۔
معراج ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے اور دین کی اصطلاح میں معجزہ اس بات کو کہتے ہیں جو ﷲ تعالیٰ کسی پیغمبر کے دعوۓ نبوت کو ثابت کرنے کے لیے دنیا والوں کے سامنے ظاہر فرماۓ۔ﷲ تعالیٰ نے اپنے ہر پیغمبر کو معجزہ عطا فرمایا، اور نبی محترم ﷺ کو بھی معجزہ عطا فرمایا ، اور وہ ہے معراج۔
حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میرے پاس ایک آنے والا آیا اور اس نے میرا سینہ چاک کیا۔ سینہ چاک کرنے کے بعد میرا دل نکالا پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا جو ایمان و حکمت سے لبریز تھا۔ اس کے بعد میرے دل کو دھویا گیا پھر وہ ایمان و حکمت سے لبریز ہوگیا۔ اس قلب کو سینہ اقدس میں اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔ (بخاری شريف )
مشہور روایت کے مطابق معراج 27 رجب کو پیش آیا، اور معراج اُس وقت پیش آیا، جس وقت نبی محترم ﷺ دعوت دے رہے تھے لیکن ابھی دعوت زیادہ موثر نہیں ہوپائی تھی۔ اور آپﷺ کو پریشانی لاحق ہوئی کہ کیا میں معراج کے واقعے کا تذکرہ قریش کے سامنے کروں یا نہیں، لیکن آپ ﷺ ﷲ کے رسول تھے، اور رسول کا کام ہوتا ہے، لوگوں تک پہنچانا، جو اُسے ﷲ کی طرف سے وحی ہو یا کسی چیز کا مشاہدہ کرایا جائے۔
اب جب آپ ﷺ نے معراج کا واقعہ بیان کیا، تو وہ مشرکین کی ہٹ دھرمی میں اضافہ ہی بن گیا، برعکس اِس کے وہ آپﷺ پر ایمان لاتے اور ضعیف الایمان والے لوگوں کے لیے بھی زیادہ فائدہ مند ثابت نہ ہو سکا۔ بقول حافظ ابنِ کثیر ” معراج کے واقعہ کو سُن کر بہت سے مسلمان مُرتد ہوگئے "۔
اس رات کے سفر کا پیغام یوں تھا کہ اسلام کے اصولوں پر ایک نئی ریاست کی سنگِ بنیاد رکھنے سے پہلے وہ ہدایات دی جا رہی ہیں، جن پر آپﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کو آگے کام کرنا تھا۔ وہ بڑے بڑے اصول جن پر آئندہ اسلامی ریاست اور معاشرے کی تعمیر ہونی تھی، وہ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 23 تا 37 میں بیان ہوئے ہیں۔ جو یوں ہیں :
(1) شرک نہ کرو (2) والدین کی عزت اور اطاعت کرو (3) حق داروں کا حق ادا کرو (4) فضول خرچی سے بچیں (5) بخیل بن کر نہ رہے (6) میانہ روی اختیار کرو(7) اپنی اولاد کو قتل نہ کرو (8) زنا کے قریب نہ جاؤ (9) کسی کو ناحق قتل نہ کرو (10) یتیم سے بہتر سلوک کرو (11) عہد کی پاس داری کرو (12) ناپ تول اور وزن کرنے میں عدل کرو (31) نامعلوم بات کی پیروی نہ کرو، یعنی جہالت سے دور رہو (14) غرور اور تکبر سے اجنتاب کرو.۔
یہی وہ اصول تھے، جن پر نبیﷺ نے مدینے پہنچ کر اسلامی سوسائٹی اور اسلامی ریاست کی تعمیر فرمائی۔ اور یہی وہ اصول ہیں جن کو ہمیں اب اپنے معاشرے میں نافذ کرنے ہیں اور وہی ہمارے لیے اصل معراج ہے کیونکہ ہر انسان خود اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمّے داری رکھتا ہے۔ لہذا ایک صالح معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذاتی ذمّے داری پر نظر رکھنی چاہیے کہ وہ کس حد تک ان اصولوں کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور کس حد ناکام ہوا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ کیا اس نے اِن اصولوں کو اپنے معاشرے میں نافذ کرنے کی کوشش کی ہے۔
لیکن ہمارے معاشرے کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی ذمّے داری کو چھوڑ کر خرافات ، آپسی رنجشوں، اختلافات میں ایسے الجھ گئے ہیں کہ ہم اصل مقصدِ معراج بھول چُکے ہیں۔ ﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں معراج کے حقیقی پیغام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
شیخ افلاق حسین
سیموہ ترال