سید اعجاز
سرینگر//شعبہ اردو، کشمیر یونی ورسٹی کے زیر اہتمام 26 تا 27جون کو دو روزہ قومی سمینار بہ عنوان "جموں و کشمیر میں اردو افسانہ: سمت و رفتار” کا انعقاد عمل میں لایا گیا۔ سمینار کی افتتاحی تقریب سے پہلے وائس چانسلر ، کشمیر یونی ورسٹی پروفیسر نیلوفر خاں نے شعبہ اردو کی کمپیوٹر لیبارٹری کا افتتاح کیا۔ کمپیوٹر لیبارٹری کا نام کشمیر کے معروف شاعر اور ادبی نقاد پروفیسر حامدی کاشمیری کی یاد گار میں رکھا گیا؛ جنہوں نے یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر کے علاوہ کئی دیگر حیثیتوں سے کشمیر یونیورسٹی کی خدمات انجام دیں ہیں۔ اس موقع پر ڈین فیکلٹی آف آرٹس و صدر شعبہ اردو پروفیسر عارفہ بشریٰ، پروفیسر عادل امین کاک، سابق ڈین فیکلٹی آف آرٹس، کشمیر یونیورسٹی، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی، کوآرڈینیٹر اقبال انسٹی ٹیوٹ کشمیر یونیورسٹی، پروفیسر روبی زتشی، پرنسپل انسٹی ٹیوٹ آف میوزک اینڈ فائن آرٹس، کشمیر یونیورسٹی، پروفیسر زاہدہ جبین، صدر شعبہ ہندی، کشمیر یونیورسٹی، پروفیسر معراج احمد، صدر شعبہ سنسکرت، کشمیر یونیورسٹی، ڈاکٹر کے سی۔ شرما، شعبہ سنسکرت، پروفیسر جہانگیر اقبال، شعبہ فارسی اور دیگر معززین بھی موجود تھے۔بعد ازاں، وائس چانسلر پروفیسر نیلوفر خان نے کشمیر یونیورسٹی کے ای ایم ایم آر سی آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کی۔وائس چانسلر نے کمپیوٹر لبارٹری کی افتتاح پر شعبہ اردو کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے شعبہ اردو ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوجائے گا اور اسے نئی سمت میں آگے بڑھنے کے بے شمار مواقع میسر ہوں گے۔ انہوں نے اس بات کی تلقین کی کہ شعبہ اردو اردو زبان کی درس و تدریس اور آموزش کی اختراعی اور جدید حکمت عملیوں کو اپنائے اور جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہوکرنصاب ترتیب دیں۔ جموں و کشمیر کے ممتاز افسانہ نگار وحشی سعید مہمان خصوصی کی حیثیت سے موجود رہے؛ جنھوں نے سمینار کے انعقاد پر شعبہ اردو کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے سمینار کے موضوع کو وقت کی اہم ضرورت قرار دے دیا۔ جبکہ ممتاز شاعر، فکشن نگار اور لغت نویس پروفیسر شفق سوپوری نے کلیدی خطبہ پیش کیا۔ ا±نھوں نے جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی تشکیل و تعمیر میں اس کے تاریخی و ثقافتی نیز فنی پہلووں کو ا±جاگر کرتے ہوئے عصری منظر نامہ پیش کیا۔ شعبہ اردو، میرٹھ یونیورسٹی سے پروفیسر اسلم جمشید پوری اور شعبہ اردو،علی گڑھ یونیورسٹی سے پروفیسر صغیر افراہیم نے سمینار کے موضوع کے حوالے سے آن لائن اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ پروفیسر عارفہ بشریٰ، ڈین فیکلٹی آف آرٹس وصدر شعبہ اردو نے معزز مہمانوں کا استقبال کیا۔ انہوں نے سمینار کے اغراض و مقاصد نیز اس کی اہمیت پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ا±نہوں نے کمپیوٹر کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ "آج کے ٹیکنالوجیکل دور میں انٹرنیٹ ایک اہم ضرورت ہے؛ جو عالمی مواصلات، ابلاغ وترسیل اور اختراعی و ایجاداتی معاملات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نہ صرف لوگوں کو جوڑتا ہےبلکہ دنیا بھر میں علم اورمتنوع سہولیات تک رسائی کو قابل یقین بناتا ہے۔ اسی پہلو ملحوظ رکھتے ہوئے شعبہ اردو نے کمپیوٹر لبارٹری کا افتتاح کیا جو کہ ایک طویل عرصے سے طلبا اور ریسرچ اسکالروں کا مطالبہ رہا ہے۔ آخر میں ڈاکٹر مشتاق حیدر نے تحریک شکرانے میں تمام معزز مہمانوں اور شرکا کا شکریہ ادا کیا۔ پروگرام کی نظامت ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر نے کی۔
دوسرے دن تین تکنیکی نشستوں میں جن کی صدارت پروفیسر عادل امین کاک، پروفیسر صلاح الدین ٹاک، ڈاکٹر عرفان عالم، ڈاکٹر محی الدین زور کشمیری،ڈاکٹر ریاض توحیدی، داکٹر الطاف انجم، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی اور داکٹر طارق عبداللہ نے کی، کل 24 مقالے پڑھے گئے۔ جن میں جموں و کشمیر میں اردو افسانے کے عصری منظر نامے کے ساتھ ساتھ افسانے کے تدریجی مراحل نیز مختلف ادوار میں تاریخی، تہذیبی و ثقافتی اور فنی پہلووں پر بھی ارکاز کیا گیا۔ مزید برآں، نئے لکھنے والوں کو بھی متعارف کرایا گیا؛ جو اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ یہ صنف صحیح سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔ پیش کیے گئے مقالوں سے اس بات کا بھی انکشاف ہوا ہے کہ جموں و کشمیر میں اردو افسانہ نہ صرف صنفی اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہاں کی ثقافتی اور تاریخی وراثت کے تحفظ میں اردو افسانہ ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خواتین افسانہ نگاروں پر بھی چند مقالے پیش کیے گئے؛ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی ترقی و ترویج اور اسے ایک صحیح سمت عطا کرنے میں خواتین افسانہ نگاروں کا کلیدی رول رہا ہے۔
پروفیسرعارفہ بشریٰ، ڈین فیکلٹی آف آرٹس و صدر شعبہ اردو نے شعبہ اردو کے کانفرنس ہال میں منعقدہ اختتامی نشست کی صدارت کی۔ پروفیسر بشریٰ نے سمینار کے اغراض و مقاصد اور اس کی ماہیت کا اعادہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں اردو افسانے کو جدید رجحانات کے تناظر میں از سر نو پرکھنے کی ضرورت ہے جس سے اس بات کی نشان دہی ہو سکے کہ جموں و کشمیر میں اردو افسانے کی عصری نوعیت کیا ہے نیز اس کے تفکیری رویوں میں کیا کچھ تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ تاکہ اردو دنیا میں جموں و کشمیر کا افسانہ اپنی منفرد شناخت کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے۔ آخر میں صدر شعبہ اردو نے شرکا میں اسناد تقسیم کیں۔