جموں/28اپریل2025ئوزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج ایک جذباتی اور پُراثر خطاب میں دہشت گردی کی شدید مذمت کی اور پہلگام دہشت گرد انہ حملے میں 26 معصوم جانوں کے ضیاع پر اِتحاد اور حوصلے کی اپیل کی۔ وزیر اعلیٰ پہلگام دہشت گردانہ حملے کے بعد بلائے گئے جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی کے خصوصی سیشن سے خطاب کر رہے تھے ۔وزیر اعلیٰ نے اَپنی تقریر کے آغاز میں کہا،”یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ چند روز قبل ہم اسی ایوان میں بجٹ اور دیگر اہم معاملات پر بھرپور مباحثہ کر رہے تھے۔ہمیں اُمید تھی کہ ہم معمول کے حالات میں دوبارہ ملیں گے۔ہم میں سے کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ ہم اِس طرح کے المناک اور تکلیف دہ حالات میں دوبارہ ملیں گے ۔“وزیر اعلیٰ نے لیفٹیننٹ گورنر کاخصوصی سیشن بلانے پر شکریہ اَدا کرتے ہوئے کہا کہ اس نقصان کی شدت کو ہماری اسمبلی سے بہتر کوئی اور ادارہ سمجھ نہیں سکتا۔اُنہوں نے اراکین اسمبلی شگن پریہار، سکینہ اِیتو اور سجاد لون جیسے رہنماو¿ں کی قربانیوں اور یکم اکتوبر 2001 ءکے اسمبلی حملے کی ہولناکی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ شاید ہی کوئی دوسرا ایوان اس درد کو اس شدت سے محسوس کر سکتا ہو۔وزیر اعلیٰ نے ایوان کی جانب سے دہشت گرد انہ حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے متاثرہ کنبوں سے ہمدردی اوریکجہتی کا اِظہار کیا۔اُنہوںنے کہا کہ یہ صرف ایک ریاست کے لوگوں پر حملہ نہیں تھا بلکہ یہ ہندوستان کی روح پر حملہ تھا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ متاثرین کا تعلق اروناچل پردیش سے گجرات، کیرالہ سے جموں و کشمیر تک پورے ہندوستان سے ہے جو ایک قومی سانحہ کی علامت ہے۔ اُنہوں نے اَفسوس کا اِظہار کرتے ہوئے کہا کہ جہاں ہم نے اُمید کی تھی کہ دہشت گردی ماضی کا قصہ بن چکی ہے، وہیں یہ المناک واقعہ بائیس برس بعد بے گناہ شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کے ساتھ دہشت گردی کی واپسی کی علامت بن گیا۔اُنہوں نے اَپنی بے بسی بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ ذاتی طور پر پولیس کنٹرول روم گئے تاکہ شہیدوں کو آخری خراجِ عقیدت پیش کر سکیں۔ اُنہوں نے درد بھرے انداز میں سوال کیا”کیا معافی کافی ہوگی؟“
وزیراعلیٰ نے اعتراف کیا کہ اگرچہ سیکورٹی کی ذمہ داریاں اب منتخب حکومت کے پاس نہیں ہیں لیکن وزیر اعلیٰ اور وزیر سیاحت کی حیثیت سے اُنہوں نے سیاحوں کو مدعو کرنے اور ان کی بحفاظت واپسی کو یقینی بنانے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
وزیرا علیٰ نے حملے میں اَپنے شوہر کھونے والی ایک نئی نویلی دلہن خاتون کے دِل دہلادینے والے الفاظ بیان کرتے ہوئے کہا ،”ہم میں سے کوئی بھی خون بہانے کی خواہش نہیں رکھتا …. نہ اس ایوان میں، نہ باہر!“
اُنہوں نے حملے کے باوجود اُمید کی ایک کرن کی نشاندہی کی۔جموں و کشمیر بھر میں اِس حملے کی بے ساختہ اور وسیع پیمانے پر لوگوں نے مذمت کی۔ کٹھوعہ سے کپواڑہ تک عام شہریوں نے بینرز اور پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ’ ناٹ اِن مائی نیم‘۔