سرینگر /پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی سربراہ محبوبہ مفتی نے منگل کے روز زور دے کر کہا کہ جنگ ایک ”آخری آپشن“ بھی نہیں ہے بشرطیکہ ہندوستان ایک جوہری طاقت ہو۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کو پہلگام حملے کے بعد پہلے کثیر الجماعتی وفد بھیجنا چاہیے تھا تاکہ دوسرے ممالک کو ملک کی آزمائش سے آگاہ کیا جا سکے انہوں نے حالیہ سرحد پار گولہ باری سے متاثرین کو 50لاکھ روپے اور مہلوکین کو شہد کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔کشمیرنیوز سروس( کے این ایس ) کے مطابق محبوبہ مفتی نے پاکستان کی شیلنگ، گولہ باری سے تباہ ہوئے سرحدی علاقوں کو ”جنگ زدہ زون“ قرار دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے متاثرہ کنبوں کو باز آبادکاری کے لیے 50 لاکھ روپے معاوضہ دینے کی سفارش کی۔ محبوبہ مفتی نے سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے شیلنگ کے دوران ہلاک ہوئے افراد کو ”شہید کا درجہ“ دینے کی بھی مانگ کرتے ہوئے لواحقین کو سرکاری نوکریاں فراہم کرنے کی مانگ کی۔یاد رہے کہ آپریشن سندور کے بعد پاکستان کی جانب سے جوابی کارروائی کے دوران جموں و کشمیر کے سرحدی علاقوں بشمول، جموں، پونچھ اور راجوری کے علاوہ شمالی کشمیر کے اوڑی اور ٹنگڈار علاقوں میں کی گئی گولہ باری کے نتیجے میں بیس سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ ہزاروں عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔محبوبہ مفتی نے بتایا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول کے قریبی علاقوں خاص کر پونچھ اور کپوارہ کا دورہ کیا اور وہاں ہوئی تباہی کا از خود مشاہدہ کیا۔ محبوبہ مفتی نے عمر عبداللہ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا: ”گولہ باری سے خوفزدہ لوگوں کو ابھی تک حکومت کی جانب سے خاطر خواہ امداد نہیں پہنچائی گئی ہے، بعض لوگ اب بھی ٹینٹ کے منتظر ہیں۔“محبوبہ مفتی نے یوٹی و مرکزی حکومت سے متاثرین کی بازآبادکاری کے لئے فوری اقدامات کی مانگ کی اور بینک سے حاصل کیے گئے قرض کے بعد تعمیر کئے گئے مکان اور دکانوں کا خصوصی حوالہ دیتے ہوئے ان کے قرضوں کو معاف یا خصوصی پیکیج کے اعلان کی بھی سفارش کی۔محبوبہ مفتی نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”کئی افراد جو مجھ سے ملاقی ہوئے، نے نجی بنکرز کا مطالبہ کیا۔“ محبوبہ مفتی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ”لوگ اب بھی خوفزدہ ہیں، انہیں لگتا ہے کہ جنگ کبھی بھی چھڑ سکتی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ لوگوں کو اس خوف سے باہر نکالنے کے لئے سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔“سابق وزیر اعلیٰ نے کہا: ”جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں اور حکومت ہند کو سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی پالیسی کو اپناتے ہوئے سیاسی مداخلت کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔“ انہوں نے ایک بار پھر دائمی امن کی راہ ہموار کیے جانے کے لیے سیاسی مذاکرات شروع کیے جانے کی سفارش کی۔مفتی نے کہا کہ یہ جنگ عام شہریوں کے درمیان نہیں بلکہ دو ممالک کے درمیان ہے۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تنازعہ کو سیاسی مداخلت اور سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا تھا۔حکومت کو بہت سے کام کرنے چاہئیں، کیونکہ یہ ہماری جنگ نہیں ہے، یہ دو ممالک کے درمیان ہے جس چیز کو سیاسی مداخلت اور سفارت کاری سے حل کیا جا سکتا تھا جہاں چاقو کی ضرورت تھی، آپ تلوار نکال دیتے ہیں، اس سے فائدہ کیا ہے؟ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں کیونکہ اس سے صرف تباہی ہوتی ہے جب کہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔مفتی نے کہا، "مجھے امید ہے کہ دونوں ممالک سمجھیں گے کہ جنگ کوئی حل نہیں ہے۔ جنگ تباہی لاتی ہے، اور یہ صرف میڈیا کی ٹی آر پی میں اضافہ کرتی ہے۔ سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی زندگیاں، خاص طور پر جموں و کشمیر سے، تباہ ہو جاتی ہیں۔