غم اور خوشی
رازحیات
معراج زرگر
ہر انسان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے وجود کی گتھی کو سلجھانے میں لگا ہے۔ ریڑھی پہ مٹر چلغوزے بیچنے والااپنی حیثیت کے مطابق زندگی جی رہا ہے اور کسی انٹرپرائیز یا انکارپوریشن کا مالک اپنے پندار اور اسٹیٹس کو لیکر اپنے وجود کو گھسیٹ رہا ہے۔ہم سب اپنے اپنے دکھ سکھ لیکر جی رہے ہیں۔ اندھا اپنے اندھے پن کو گلے سے لگائے بیٹھا ہے اور کبڑا اپنی پیٹھ پر اپنا بوجھ لئے روز و شب کاٹ رہا ہے۔
سب لوگ اچھے ہیں۔ برا بس اپنا وجود ہے۔ ہم اپنے ہی وجود کی مسٹری اور کمسٹری کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اور جب اس سمجھنے کی فریوکینسی کو بالکل ہی پکر نہیں پاتے تو دوسروں کی اچھائیوں اور برائیوں کا تجزیہ کرکے خود کو تسلی دینے لگتے ہیں۔ یا دوسروں کو چھوٹا یا بڑا ثابت کرنے لگتے ہیں۔ اصل میں چھوٹا یا بڑا، اچھا یا برا کوئی نہیں۔ اچھاوہ ہے جو اپنے عمل اور رد عمل میں بڑا ہے۔ اور چھوٹا وہ ہے جو اپنی ذات اور کرتوت میں چھوٹا ہے۔ برا وہ ہے جو خود برا ہے اور اچھا وہ ہے جو خود اچھا ہے۔
کوئی اگر برا ہے تو اسے برا کہنے کی جرآت ہم کہاں سے لائیں۔ کیا ہم خود اپنی ساری چیزوں سے بری ہونے کی سند حاصل کر چکے ہیں۔ نہیں نا۔ ہم تو خود اپنی اپنی شناخت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ جو ہمارے ہی برے پن کا نتیجہ ہے۔
خوشی کا سرچشمہ بھی اپنا ہی وجود ہے۔ خوشیوں کو دوسرے کے دامن سے حاصل کرنا بھکاری پن اور دریوزہ گری کے سوا کچھ نہیں۔ خوشی حاصل کرنے کا بہترین اسلوب یہ ہے کہ ہمارے تعلق اور رویے سے کوئی دوسراخوش ہو۔ چاہے وہ کوئی ہندو، سکھ، دوسرے مسلک کا مسلمان، کم ذات، کمینہ ہی کیوں نہ ہو۔ خوشیاں بازار میں نہیں ملتی۔ اور غم خود رو گھاس کی طرح ہمارے آنگن میں ہر طرف پھیلا ہے۔ جس کو اکھاڑو یا جلاؤ تو اگلے دن نئی گھاس کی فصل ہمارا انتظار کر رہی ہوگی۔ کیونکہ ہمارے وجود کی زمین میں ہم نے کبھی خوشیوں کے بیج بوئے ہی نہیں۔
رات کا کالا پن آنکھوں کو سکون بخشتاہے۔ اور دن کا اجالا آنکھیں چندھیادیتا ہے۔ ہماری خوشیوں کا محور بدل گیا ہے۔ تطمعن القلوب کا مجرب نسخہ اب کہیں میسر ہی نہیں۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز، آن لائن بینک اور مستی و سرور کے کیفے اور ریستوران خوشیاں دیتے نہیں، خوشیاں چھین لیتے ہیں۔ خوشی مادے سے نہیں بنی ہے۔ غم مادے سے بنا ہے۔ غم کی بناوٹ میں سکوں کی کھنکھناہٹ شامل ہے۔فقیر ہم سے جب روپیہ مانگتا ہے تو ہم اس کی جھولی یا کشکول میں روپیہ نہیں غم ڈالتے ہیں۔ ہم کچھ اور ڈالتے۔ محبت یا برکت۔ مگر ہماری اپنی جھولیوں میں بھی سکوں کی چھنکار اور کھنکار کے سوا کچھ نہیں۔ ہماری ماں، بوڑھا باپ، پیاری بیٹی، لاڈلا بیٹا محبت کو ترستے ہیں اور ہم ہر مہینےانہیں پیسوں کی چھنکار دیتے ہیں۔ جس سے ان کے کانوں کے پردے پھٹ چکے ہیں۔ اب وہ ہماری کم سنتے ہیں۔ اور چھنکار زیادہ سنتے ہیں۔
جب آدمی کے پاس کچھ نہیں تھا تو خوشیاں تھیں۔ اب سب کچھ ہے تو غم بھی ہے۔ اس دکھ سکھ کے گلیارے میں جینے کی ترکیبیں کم ہیں فتوے ذیادہ ہیں۔ ڈھارس بندھانے والا کوئی نہیں، ڈانٹنے والے سبھی ہیں۔ پہلی ڈانٹ صبح گھر میں کھانے کو ملتی ہے۔ کیونکہ گھروں میں اب خوشیوں اور محبتوں کے چولہے نہیں جلتے، مٹھاس اور شیرنی سے بنی کھیر نہیں پکتی۔ بلکہ تلخیوں اور زہر میں بھنے ہوئے آملیٹ اور ترش روئی اور کھٹاس کے چکن رولز پکتے ہیں۔پھر صبح سے شام تک یا ہم غم خرید رہے ہوتے ہیں یا بیچ رہے ہوتے ہیں۔ہم بھی اب بازاری ہوگئے ہیں۔ ہر نگاہ خریدار ڈھونڈتی ہے اور ہر دل دکانداری کرنے کا طالب ہے۔
ایک کہاوت ہے کہ بندریا جس اپنے بچے سے ذیادہ پیار کرتی ہے۔ اسکے جسم پہ ذیادہ کھرونچیں ہوتی ہیں۔ ہمارے بچے بھی زخمی ہیں۔ جسموں پہ اگر کھرونچیں نہیں ہیں مگر دل انکے بھی زخمی ضرور ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ آٹھ سال کی عمر کا بچہ پڑوسی یا رشتہ دار کے بیس سالہ بچے کی طرح ڈاکٹر یا اسسٹنٹ پروفیسر کیوں نہیں۔ اسٹیفن ہاکنگ اگر زندگی کے پچاس سال موٹر نیوران بیماری میں مبتلا ہوکر ایک وھیل کرسی پہ گذارکے بڑی بڑی کتابیں لکھ سکتا ہے، تو ہمارے ننھے منے عربی گرائمر کیوں نہیں پڑھ سکتے۔ بچوں کو بڑے بڑے انگریزی میڈیم اسکولوں میں داخلہ دلوانے سے خوشیاں نہیں ملتی۔ خوشیاں بچوں کو ایک معمولی سرکاری اسکول میں خوش رکھنے سے ملتی ہیں۔ہمارا بچہ دس روپیہ کی چیز توڑتا ہے۔ اور ہم اسے تھپڑ مارکے اس کا کھربوں اربوں کا دل توڑ دیتے ہیں۔ ہمارا کوئی رشتے دار یا پڑوسی یا دوست ہمارے آنگن میں اگر کوڑاکرکٹ پھینک دے تو ہم اسے اپنی زندگی سے پھینک دیتے ہیں۔ خوشیاں ایویں نہیں ملتی۔ کمانی پڑتی ہیں۔
زندگی کا فلسفہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ سکڑکر ہر ایک کی ہتھیلی پر آ ہی جاتا ہے۔ جو بندہ بانٹے گا، وہی تو پائے گا۔ خوشی کی ٹافیاں صدقہ کرے گاتو واپس خوشی ہی کے چاکلیٹ ملیں گے۔ اور اگر غم کے نوالے بانٹے گا تو زندگی کی ہر رگ سے زہر ٹپکے گا۔ بند کمروں میں وحشت، گھٹن اور اندھیرے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اور دلوں کے کھلے کمرے اگر خالی بھی ہوں تب بھی وہاں روشنی اور ہوا ضرور ہوتی ہے۔
ہمارے مزاج اور طبعیتیں ملّائی ہو گئی ہیں۔ سب کچھ بدلے پر فتوے نہ بدلیں۔ دوسروں کی آنکھ مچولی نظر آتی ہے۔ اپنے ناسور نظر نہیں آتے۔ پڑوسی کے گھر کے آنگن میں اگر چاند اُتر آئے تو اچھا نہیں لگتا۔ اور اپنے آنگن میں پاخانے کی ٹکی سے بدبو نہیں آتی۔غریب ہمسائے، رشتہ دار یا دوسرے صاحب مذہب یا صاحب مسلک کی با حیا بیٹی اگر میڈیکل کالج یا یونیورسیٹی جاتی ہے تو رنڈی ہے اور اگر اپنی بیٹی میٹرک میں تین دفعہ فیل ہوکے گھر بیٹھے توپر دہ دار ہے۔میرے اپنے مسلک کا خطیب اگر بک بک بھی کرے تو آیات الٰہی کا نگیبان ہے اور اگر دوسرے فرقے کا علامہ عین حق کہہ رہا ہے تو منکر اورگستاخ ہے۔ اب خوشیاں ملیں تو کہاں سے۔
بڑا انسان وہ ہے جو اپنے وجود کی کمزوریوں کا معترف ہے۔ خوبصورت انسان وہ ہے جس نے اپنی ناکامیوں سے سبق لیا اور دانا وہ ہے جس نے اپنی غلطیوں سے سیکھا۔ خوش وہی رہ سکتا ہے جس نے خود کو پایا۔ جس نے خود کو کھویا۔ غم اس کا مقدر ہے۔