سرینگر /28 جموں کشمیر کے ریاستی درجہ کی بحالی کیلئے پانچ سال کا انتظار نہیں کر رہے ہیں بلکہ اس سال ہی اس کی بحالی کی امید کر رہے ہیں کی بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا کہ اس سلسلے میں بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کو ہٹانے سے جموں و کشمیر میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے،کیونکہ حالات معمول پر نہیں ہیں اور دہشت گردی کے واقعات اب بھی موجود ہیں۔عمر عبد اللہ نے مزید کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی کا ہونا ایک ہائبرڈ نظام ہے اور ملک میں یا تو صرف ریاستیں ہونی چاہئیں یا صرف یوٹیز۔ سی این آئی کے مطابق ’دی ریڈ مائک ڈائیلاگس ود عمر عبداللہ‘ کے ایک پروگرام، ’امیدو کا جموں کشمیر‘ میں بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے کہا کہ جموں و کشمیر میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔وزیر اعلی عمر عبداللہ نے کہا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقے میں اسمبلی کا ہونا ایک ہائبرڈ نظام ہے اور ملک میں یا تو صرف ریاستیں ہونی چاہئیں یا صرف یوٹیز ۔ آدھے اختیارات کے ساتھ ریاست کی بحالی کے بارے میں انہوں نے کہا”ہندوستان میں کوئی ایسا ماڈل نہیں ہے جہاں آپ کے پاس تمام اختیارات کے بغیر مکمل ریاست ہو۔ لہذا جب تک آپ ایسی صورتحال کا تصور نہیں کر رہے ہیں جہاں جموں کشمیر کے ساتھ منفرد سلوک کیا جائے گا، میں نہیں دیکھ رہا ہوں کہ یہ کیسے کام کرے گا، اگر آپ جموں کشمیر کے ساتھ منفرد سلوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو براہ کرم وضاحت کریں کہ 5 اگست 2019 کیا تھا۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو وہ سب کہہ رہے تھے کہ جموں کشمیر کو باقی ملک کے برابر لایا گیا ہے“۔انہوں نے کہا ” پورا خیال یہ تھا کہ آپ کے پاس ایک ملک میں دو نظام نہیں ہوسکتے ہیں، اگر یہ ایک ملک میں ایک نظام ہے تو اب آپ صرف جموں کشمیر کے نئے نظام کی تجویز کیسے کرسکتے ہیں؟ آپ کو ہمارے ساتھ برابری کا سلوک کرنا ہوگا“۔دفعہ 370 کے فیصلے پر اپنے بیان کے بارے میں، انہوں نے کہا کہ وہ واضح کر چکے ہیں کہ سپریم کورٹ پہلے ہی دفعہ 370 کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے اور اب جب کہ اس کے خلاف فیصلہ دے دیا گیا ہے، تو پھر سے موافق فیصلے کی توقع ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کو ہٹانے سے جموں و کشمیر میں کوئی واضح تبدیلی نہیں آئی ہے،کیونکہ حالات معمول پر نہیں ہیں اور دہشت گردی کے واقعات اب بھی موجود ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ اعداد و شمار سے متفق نہیں ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے دور میں عسکریت پسندی سے متعلق واقعات، بھرتیوں اور دیگر متعلقہ چیزوں کا رجحان بھی کم ہوا تھا۔ انہوں نے کہا ” دفعہ 370 کو ہٹانے کی وجہ سے پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ مرکز نے ایسے اقدامات کیے جو جموں و کشمیر کی حکومت نے کبھی نہیں کیے ہوں گے۔ “ عمر عبد اللہ نے مزید کہا ” دفعہ 370 کو ہٹانے سے سیکورٹی کے حالات میں بہتری پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ یہ صدر کے راج کے تحت علاقے کی وجہ سے ہے اور اسی طرح آپ نے سیکورٹی فورسز کو سنبھالا“۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ امیت شاہ مرکزی وزیر داخلہ ہیں اور ان سے ملاقات کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی۔ عمر نے کہا ” جب میں ماضی میں چدمبرم اور دیگر وزیر داخلہ سے ملا تو کسی نے اس کے بارے میں بات نہیں کی، آپ مرکز کے تعاون کے بغیر کام نہیں کر سکتے“۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکز نے تصادم کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے، وہ کسی بھی طرح سے منتخب حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے ریاستی حیثیت کی بحالی کا وعدہ کیا ہے، لیکن اگر وہ اپنا موقف بدلتے ہیں تو ہم بھی اپنا نقطہ نظر بدل لیں گے“۔ریاست کی بحالی کے بارے میں انہوں نے کہا کہ وہ پانچ سال کا انتظار نہیں کر رہے ہیں، بلکہ اس سال ہی ریاست کی بحالی کی امید کر رہے