یوکرائن اور تین مغربی ممالک کی ایران سے زرتلافی کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ یہ ممالک تہران پر یوکرائنی طیارے کو ایرانی میزائل لگنے سے ہلاک ہونے والوں کو زر تاوان کی ادائیگی سے بچنے کی کوشش کا الزام لگا رہے ہیں۔یوکرائن کا ایک مسافر بردار طیارہ ایران کے فوجی میزائل کا نشانہ بن گیا تھا، جس میں 176 افراد مارے گئے تھےیوکرائن کا ایک مسافر بردار طیارہ ایران کے فوجی میزائل کا نشانہ بن گیا تھا، جس میں 176 افراد مارے گئے تھےجنوری 2020 میں ایران کے ایک فوجی میزائل کا نشانہ بننے سے یوکرائن کے ایک مسافر بردار طیارے پر سوار 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ یوکرائن اور تین مغربی ممالک اس حادثے کے لیے تہران سے زر تاوان کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ایران کے میزائل حملے کی وجہ سے یوکرائنی طیارہ حادثے کے غیر ملکی متاثرین کی نمائندگی کرنے والے ‘انٹرنیشنل کوآرڈی نیشن اینڈ ریسپانس گروپ میں شامل کینیڈا، سویڈن، یوکرائن اور برطانیہ کے وزراء نے گزشتہ ماہ ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ انہیں ایران کی طرف سے 27 دسمبر کو ایک "غیرمبہم” جواب موصول ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ "وہ زر تلافی کے لیے ہمارے مشترکہ مطالبے کے حوالے سے گروپ کے ساتھ بات کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔”ان چاروں ملکوں نے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو ارسال کردہ ایک بیان میں کہا ہے کہ زر تلافی کے مسئلے کو اجتماعی طور پر حل کیا جانا چاہئے تاکہ تمام متاثرین کے ساتھ مساوی اور منصفانہ سلوک ہوسکے۔ انہوں نے ایران پر کوآرڈی نیشن گروپ کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کرکے بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں سے بچنے کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔جنوری 20ِ20 میں کئی دنوں تک انکار کے بعد ایران نے بالآخر یہ تسلیم کرلیا تھا کہ اس کے نیم فوجی دستے پاسداران انقلاب نے غلطی سے یوکرائن کے اس مسافر بردار طیارے کو میزائل حملوں کا نشانہ بنایا تھا جو تہران ہوائی اڈے سے اڑا تھا۔ یہ واقعہ اسی روز ہوا تھا جب ایران نے اپنے ایک چوٹی کے فوجی جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے عراق میں امریکی فوجیوں پر بیلیسٹک میزائل کے حملے کیے تھے۔ایرانی حکام نے اس سانحے کے متعلق ابتدائی رپورٹوں میں کہا تھا کہ ایک ایئر ڈیفنس آپریٹر نے یوکرائنی مسافر بردار طیارے بوئنگ 737-800 کو غلطی سے امریکی کروز میزائل سمجھ لیا تھا۔کوارڈی نیشن گروپ کا کہنا ہے کہ زرتلافی کے بات چیت کے ذریعہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے دو برس کی مسلسل کوششوں کے بعد انہیں یہ یقین ہوگیا ہے کہ مزید کوششیں "بیکار” ہیں اور اب چاروں ممالک اس مسئلے کو بین الاقوامی قانون کے تحت حل کرنے پر اپنی کوشش مرکوز کریں گے۔ انہوں نے تاہم اس کی وضاحت نہیں کی۔ایران نے کہا کہ یوکرائنی طیارے کو مار گرانے کے واقعے میں شامل 10 فوجی اہلکاروں کے خلاف عدالت میں مقدمات چل رہے ہیںایران نے کہا کہ یوکرائنی طیارے کو مار گرانے کے واقعے میں شامل 10 فوجی اہلکاروں کے خلاف عدالت میں مقدمات چل رہے ہیںاقوام متحدہ میں ایرانی سفیر ماجد تخت روانچی نے جمعرات کے روز اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو ارسال کردہ اپنے خط، جس کی نقل تقسیم کی گئی، میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کوارڈی نیشن گروپ کی مشترکہ مذاکرات کے لیے درخواست کی "کوئی بنیاد نہیں ہے۔”انہوں نے کہا کہ ایران ماضی میں تمام چاروں ممالک میں سے ہر ایک کے ساتھ انفرادی بات چیت کرنے کی پیش کش کرچکا ہے اورایک بار پھر "کینیڈا، سویڈن، یوکرائن اور برطانیہ کے ساتھ باہمی سطح پر بات چیت کرنے کی اپنی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔”روانچی نے کہا کہ یہ "افسوسناک ” ہے کہ باہمی مذاکرات کے بغیر ہی چاروں حکومتوں نے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ "ایران کے ساتھ بات چیت کی کوئی بھی کوشش بیکار”ہے۔ایرانی سفیر کا کہنا تھا کہ ایران جولائی 2020 اور جون 2021 میں کیف میں اور اکتوبر 2020 میں تہران میں یوکرائن کے ساتھ تین دور کی بات چیت میں شریک ہوچکا ہے۔ اور "اپنی ملکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات "کیے ہیں۔روانچی نے کہا کہ حکومت ایران اس واقعے کو سیاسی رنگ دینے اور اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایرانی حکومت پر دباو ڈالنے کے خاطر اسے واقعے کو استعمال کرنے کی کسی بھی کوشش کی سخت مذمت کرتی ہے۔روانچی نے بتایا کہ ایرانی کابینہ حادثے میں ہلاک ہونے والے ہر شخص کے رشتہ داروں کو فی کس ڈیڑھ لاکھ ڈالر کی رقم بطور زرتلافی ادا کرنے کا حکم پانچ جنوری 2021 کودے چکی ہے۔ اور متعدد متاثرہ کنبوں کو یہ رقم ادا بھی کر دی گئی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہے کہ تمام کنبوں کو بلا تفریق شہریت اور کسی بھید بھا و کے زرتلافی ادا کرے گا اور اس حوالے سے خود ساختہ گروپ کے بے بنیا د دعووں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔”ایرانی سفیر نے مزید کہا کہ یوکرائنی طیارے کو مار گرانے کے واقعے میں شامل 10 فوجی اہلکاروں کے خلاف عدالت میں مقدمات چل رہے ہیں اور متاثرین کے کنبوں سے اور عوامی طورپر بھی کہا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص ایران کی کسی اہل عدالت میں ملزمین کے خلاف شکایت درج کرا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ متاثرین کے کنبوں کی موجودگی میں اب تک اس کیس کی کئی سماعتیں ہوچکی ہیں۔