معراج زرگر
سن 1911 میں ایک انگریزی اخبار میں مسوری میں رہنے والے ایک انگریز ڈاکٹر جے مارٹن نے A Neglected Grave یعنی "ایک نظر اندازشدہ قبر” کی سرخی سے شائع ہونے والے خط کے بعد غالب کے چاہنے والوں کی سوچ بدلی۔ قبر کو محفوظ کرنے کیلئے لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ادارے بننے لگے ۔ کئی ادارے بنے لیکن 1950ء کے بعد جب مولانا ابولکلام آزاد آ گئے اور انہوں نے اس وقت کے مرکزی سکریٹری ڈاکٹر شانتی سروپ اور دہلی کے کمشنر شنکر پرساد سے مل کر غالب سوسائٹی بنائی تو لوگ اس کے ساتھ جڑتے گئے ۔
18 ستمبر 1953ء کو غالب سوسائٹی کی پہلی میٹنگ ہوئی اور 2سال میں کام مکمل ہو گیا۔ سیٹھ گھنشیام داس بڑلا نے غالب کی قبر کیلئے اس وقت سب سے زیادہ 15ہزار روپئے چندہ دیا تھا۔ کولکتہ سے انگریزی میں کامریڈ اخبار نکالنے والے مولانا محمد علی جوہر نے 2500 روپئے دئیے تھے ۔ تمام کوششوں کے درمیان غالب کی قبر کو مزار بننے میں طویل وقت لگ گیا۔
کام مکمل ہونے پر اس کا افتتاح 10 فروری 1955ء کو ہوا۔ 28 ستمبر 2005ء کو محکمہ آثار قدیمہ نے اسے قومی یادگار قراردیا۔ قبر کے مزار بننے میں غالب کے خاندان والے ہی دشواریاں کھڑی کر رہے تھے ۔ دراصل ان کے پاس اتنا پیسہ نہیں تھا اور چندے سے مزار بنوانے میں وہ اپنی توہین محسوس کر رہے تھے ۔ مولانا ابولکلام آزاد، مرزا غالب خاندان کے نواب لوہارو سے جا کر ملے تو وہ کسی طرح راضی ہوئے اور انہوں نے 500 روپئے مزار کیلئے اپنے پاس سے دئیے ۔ غالبِؔ خستہ نے شائد اپنی حیات میں اس چیز کو محسوس کر لیا تھا۔
ہوئے مرکے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا۔
دسمبر 2012 میں میرا ایک کزن اور میں دہلی میں ایک میڈیکل چیک اَپ کے سلسلے میں تھے۔ میں نے آل انڈیا انسٹی چیٹ آف میڈیکل سائنسز دہلی میں چیک اَپ کرایا اور ابھی فالو اَپ کے لئے کئی دن تھے۔ ہم ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور دن کے اوقات میں ادھر اُدھر تاریخی مقامات کی سیر وغیرہ کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ صبح اخبارات لیکر خوب خبریں وغیرہ پڑھنا بھی معمول تھا۔
ایک صبح اچانک ٹائمز آف انڈیا کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک ورق کے چوتھائی حصے پہ ایک شاندار پروگرام کا ایڈ دیکھا, جس کی مہمانِ خصوصی اس وقت کی دہلی کی چیف منسٹر محترمہ شیلا دکشت صاحبہ کو دکھایا گیا تھا, جن کی تصویر بھی ایڈ میں چھپی ہوئی تھی۔ اور یہ پروگرام شانِ دلی اور جانِ دلی حضرت مرزا غالبؔ کے یومِ پیدائش تقریبات کے سلسلے میں تھی۔ پروگرام میں کچھ پروفیسر صاحبان, دیگر شخصیات اور پاکستان سے آئے ہوئے ایک قوال گروپ کا بھی زکر کیا گیا تھا۔ پروگرام کے مطابق 27 دسمبر کی شام کے وقت ایک کینڈل مارچ چاندنی چوک سے گلی قاسم جاں بلی ماران تک ہونا تھا اور بعد میں غالب کی حویلی پر قوالی کا پروگرام اور دیگر پروگرام تھے۔
ابھی چونکہ کچھ دن باقی تھے اس لئے ہم نے اس دوران بلی ماران کا ایک چکر مارکر گلی قاسم جاں غالب کی حویلی کو بھی دیکھا۔ اور دیکھ کر دل بہت رنجیدہ ہوا۔ کیونکہ وہ حویلی جس حالت میں تھی, اس پر افسوس کرنے کے سواء دل کو کچھ سوجھتا ہی نہیں تھا۔
خیر سے وہ دن بھی آیا۔ اور ہم وقت سے پہلے چاندنی چوک پہنچے جہاں باضابطہ ایک پولیس یا کوئی پرائیویٹ بینڈ چاک و چوبند بینڈ بجا رہا تھا۔ اور بیچ بیچ میں ایک پر وقار خاتون غالب کے کچھ اشعار ہندی لہجے میں سنا رہی تھی۔ چھوٹے سے مجمعع میں کچھ اور لوگ تھے جو داد دے رہے تھے۔ محترمہ شیلا دکشت کا آنا دھوکہ ہی ثابت ہوا۔
میں اس پُر وقار خاتون کے زرا نزدیک پہنچا اور انہیں مائیک میرے حوالے کرنے کی درخواست کی۔ جس کو آپ نے پُر وقار طریقے سے حوالے کیا۔ میں نے جب غالب کا تھوڑا سا تعارف کرایا اور پھر آپ کے کچھ اشعار پڑھے تو چھوٹے سے مجمع میں سارے لوگ محو حیرت مجھے دیکھنے لگے اور جو پر وقار خاتون تھی وہ کچھ زیادہ ہی متاثر نظر آئی۔ میں نے بیچ میں مائیک ان کے حوالے کیا تو آپ نے خوش ہوکر میرا شکریہ ادا کیا اور خاص کر لہجے کی تعریف کی۔ باتوں باتوں میں اس خاتون نے اپنا تعارف کراکر بتایا کہ وہ دہلی کالج میں کسی دوسرے سبجیکٹ کی پروفیسر ہیں لیکن اردو زبان سے بے انتہا محبت ہے۔
چھوٹا سا جلسہ بینڈ کے ساتھ جب تنگ و روشن گلیوں سے بلی ماران پہنچا تو وہاں کچھ دیر باہر بڑا دھمال ڈالا گیا۔ بالآخر سارے لوگ اندر ہال میں جمع ہو گئے۔ میں بھی بڑے شوق سے اندر داخل ہوا اور میرے کزن نے اندر داخل ہونے سے معذرت ظاہر کی۔ میں ایک خیالی دنیا میں تھا کہ شاید محفل غالب کی شاعری, ان کی حیات اور ان کے مقام و مرتبہ اور ان کی شخصیت وغیرہ کے متعلق ہوگی مگر بلی ماراں اسمبلی کے اس وقت کے ممبر ہارون یوسف اور ایک ماڈرن قسم کی ایک سوشل ورکر کو وہاں دیکھ کر اور پہلی ہی تقریر سن کر اندازہ ہوا کہ غالب یہاں بھی نہیں رہتے۔ شاید کسی زمانے میں رہ چکے ہوں۔ اس سے پہلے کہ پاکستانی قوال اپنا راگ الاپتے, میں منچ کے اوپر لکھا شعر پڑھ کر اور اندر ہی اندر کُڑھ کر وہاں سے نکل آیا۔
اُگ رہا ہے در دیوار پر سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے۔
حضرتِ غالبؔ کے بیاباں واقع نظام الدین اولیاء جانے کا موقع اس وقت نصیب نہ ہوا۔ اور 2018 میں اپنی فیملی کے ساتھ دلی جانا ہوا۔ ڈاکٹر سے بھی ملے اور کچھ جگہ سیر و تفریح بھی کی۔ اس بار حضرت غالبؔ کے مرقد اور غالب اکیڈمی پہنچا۔ حضرت نظام الدین اولیاء ؒ کے آستانے پہ حاضری کے بعد بنگلہ والی مسجد کے ٹھیک سامنے غالب اکیڈمی ہے۔ جہاں ایک میوزیم, ایک لائبریری اور بھی کچھ چیزیں ہیں۔ اور اکیڈمی کے باہر ہی غالب کا مزار ہے۔
اکیڈمی میں داخل ہو کر ہی وحشت ہونے لگی۔ چند چھوٹے ملازموں کے سواء وہاں کوئہ نہ تھا۔ اور شیشوں میں سجائے نوادرات اور لائبریری کے شیشوں پر گرد کی موٹی تہہ تھی۔ ایک چھوٹا لڑکا, جس نے اپنی شناخت ایک آفس اسسٹنٹ کے بطور کرائی, سے جب شکایت کی تو اس نے کہا کہ اکیڈمی کے چیرمین صاحب بہتر جواب دیں گے۔ اور جب چیرمین صاحب کا پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ کہیں چلے گئے ہیں۔ خیر وزیٹرز بُک میں چند سطریں لکھ کر غالب کے مزار پر آیا۔ پتھروں کی سلوں کے نیچے بر صغیر کیا, بلکہ اردو کی کائنات کا بادشاہ دفن ہے۔ اور قبر کے آس پاس ایک عجیب سناٹے اور بے بسی کا عالم ہے۔
کیا معلوم ایسا وحشت ناک سناٹا ہر قبر کے آس پاس ہوتا ہو۔
یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے
حق ِ مغفرت کرے ،عجب آزاد مرد تھا