سری نگر19 نومبر ,جموں و کشمیر پولیس خاص صورتحال سے نمٹ رہی ہے جس کا سامنا عام طور پر دنیا میں کہیں بھی پولیس کو نہیں ہوتا ہے اور جو نوجوان تشدد کا راستہ چھوڑنا چاہتے ہیں ان کے لئے الگ سے اقدامات کریں گے لیکن ان کے ساتھ سختی سے نمٹے گے جو باز نہیں آئیں گے۔ان باتوں کا اظہار جموں و کشمیر کے پولیس کے ڈائریکٹر جنرل آر آر سوائن نے سرینگر میں اپنے پہلے عوامی دربار کے موقع پر کے این ایس سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ عوامی دربار کے انعقاد کا مقصد براہ راست لوگوں تک رسائی حاصل کرکے مسئلہ کی جڑ تک پہنچنا اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے۔ ڈی جی پی نے کہا کہ اصل میں پولیس پہلے ایک خدمت گزار ہے ہیں اور پھر ایک فورس ہے اس لئے اصل مقصد براہ راست لوگوں تک پہنچنا ہے اور لوگوں میں اعتماد پیدا کرنا ہے لہذا اس کی ایک پیغام رسانی بھی ہے اور ایک ٹھوس زاویہ بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ اصل زاویہ یہ ہے کہ ہم براہ راست مسائل کی نوعیت کے بارے میں جانیں تاکہ ہم ان سے نمٹنے یا حل نکالنے کے لئے بہتر پوزیشن اپنا سکے۔انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جموں و کشمیر میں ہماری ایک خاص صورتحال ہے، ہمارے پاس ایک ایسی صورتحال ہے جہاں تشدد اور تنازعات سے مجموعی طور پر ماحول خراب ہو گیا تھا اور لوگوں کا ایک منظم گروہ جو بڑے پیمانے پر اور ایک مقصد کے لئے تشدد کا سہارا لے رہاہے، جو عام طور پر اس طرح کی صورتحال کا سامنا ملک میں یا دنیا میں کہیں بھی پولیس کو نہیں کرنا پڑتا ہے۔ پولیس چیف نے مزید کہا کہ اس خاص صورتحال کی وجہ سے ظاہر ہے کہ پولیس کو کام کرنے کا الگ طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے اور "جب آپ کے دروازے پر کوئی بندوق کے ساتھ کھڑا ہو تو آپ کیا کریں گے، آپ اسے مار ڈالیں گے اور تب ہی بات کر سکتے ہیں، لیکن ساتھ ہی آپ کو یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس کے پیچھے کون ہے، کس نے اسے بندوق اٹھانے پر مجبور کیا کیونکہ اصل میں وہ محض ایک پیادہ ہے اور یہ وہ شخص نہیں ہے جو اس دہشت گردی کو تحریک اور ایک قسم کے کاروباری ادارے کے طور پر چلانے کا فیصلہ کر رہا ہے، وہ محض ایک فٹ سپاہی ہے، لیکن دنیا میں کہیں بھی پولیس کو سب سے پہلے اس عنصر سے نمٹنا پڑتا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہے اور وہ اسکے دائرہ اختیار سے باہر ہے، اس لئے ہم اس کا خیال رکھتے ہیں۔آر آر سوین کا کہنا تھا کہ جب آپ اس سے نمٹیں تو پہلے اسے پکڑیںاور ساتھ ہی ساتھ ہمیں یہ احساس ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے ساتھ ہمیں اس کی جڑوں تک پہنچنا ہے اور بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو بچانا ہے، اس لیے پولیس ایک ایسی قوت ہے جو آخرکار انکے جان بچانے کے لئے پرعزم ہے لیکن آپ یہ کیسے کریں گے اور ریکروٹنگ عمل کو کیسے روکو گے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے جو بھی قدم اٹھانا پڑے گا وہ کریں گے۔انہوں نے کہا کہ "ہم بیماری کا علاج اسی طرح کریں گے جس طرح اس کا علاج کیا جاتا ہے، اگر 25 فیصد نقصان ہوا تو ہم اس کے مطابق اس سے نمٹیں گے تاہم انہوں نے کہا کہ جب آپ کینسر کا علاج کرتے ہیں، تو آپ سب سے پہلے یا ہمیشہ کیموتھراپی کے لئے نہیں جاتے لیکن آپ مریض کی صورت حال کے مطابق مختلف طریقہ کار اپنانے کی کوشش کرتے ہو۔”ڈی جی پی نے زور دیا کہ وہ لوگوں سے کچھ مختلف سلوک کرنا چاہتے ہیں،”وہ نوجوان جو اب بھی واپس آنا چاہتے ہیں اور تشدد کا راستہ ترک کرنا چاہتے ہیں ہم ان کے لئے ہم الگ پہل کریں گے لیکن جو لوگ سننے اور سوچنے کے لئے ابھی بھی تیار نہیں ہیں اور جو اسے تجارتی اور اقتصادی سرگرمی کے طور پر استعمال کر رہے ہیں ہم ان کے ساتھ سختی سے نمٹتے رہے گے۔