وہ اِک چراغِ طاق تھا, بجھ گیا۔
مولوی اشرف علی نازش, ایک مربی, ایک معلم, ایک شاعر, ایک استاد, ایک اتالیق اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ بچپن کا اکثر حصہ اور جوانی کے کئی سال ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھ کے گذرے۔ مولوی سید صاحب مرحوم کے بعد وانی مسجد کے امام و خطیب بنے۔
ایک عظمتوں کا دور تھا۔ مدرسہ تعلیم الاسلام ترال کی پرانی عمارت واقع پرانا بازار میں جب دوپہر کے وقت کا وقفہ ہوتا تھا تو ظہر کی نماز کے وقت پہلے حضرت مولوی سید صاحب اور ان کے بعد مولوی اشرف علی مرحوم کے پیچھے نماز پڑھنا ہزاروں طالبان علم کی یاداشتوں میں ہوگا۔ عصر اور مغرب کے بعد نماز کی فراغت کے بعد اکثر مولوی صاحب مرحوم کے گرد پرانے بازار کے عجیب ماحول میں اکثر نمازی مولوی صاحب کے گرد حلقہ ڈالتے تھے۔ اور پھر مذہب, عقائد, سماجی مسائل, سیاست وغیرہ پہ بات ہوتی تھی۔ رمضان المبارک میں نانوائی سے افطار اور سحری کے لئے روٹیاں لیتے وقت پرانے بازار میں مولوی صاحب کی صحبت کسی جامعہ میں کلاس لینے سے کم نہ تھا۔
مولوی صاحب کی بڑی خصوصیات میں ان کی شاعری اور فنِ خطاطی بھی ہے۔ وہ بلا کے خطاط تھے اور اردو اور عربی رسم الخط میں جب لکھتے تھے تو دیکھنے والا حیران ہوتا تھا۔ ان کی خطاطی کے نمونے اکثر لوگوں کے پاس محفوظ ہونگے۔ شاعری کا ذوق اور شوق بھی بلا کا تھا۔ ان کی شاعری معیاری شاعری ہے اور نعتیں گہرے اور پروقار معنی میں لکھی ہیں۔ امید ہے کہ ان کے ورثاء ان کی شاعری عوام الناس تک پہنچانے میں کوئی بخل نہیں کریں گے۔
اللہ پاک مولوی صاحب مرحوم کے درجات بلند فرماکر انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں۔ ترال آج ایک اور چراغِ علم و ادب سے محروم ہو گیا۔
(تحریر:معراج زرگر)