بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال
رابطہ ۔ 9858109109
ہر انسان کے اندر ایک ایسی صلاحیت ضرور موجود ہوتی ہے ۔ جس سے وہ کچھ خاص کر سکتے ہیں ۔ ہر ایک فرد کے اندر ہنر چھپا ہوتا ہے، جس سے تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔ جینیفر ینگ نے درست کہا ہے: "توقف اور یاد رکھیں – آہستہ اور مستحکم آپ کو وہیں پہنچائے گا جہاں آپ جانا چاہتے ہیں ۔ اگر آپ بہت جلد نتائج نکالنے کے لیے اپنے آپ پر زیادہ دباؤ ڈالتے ہیں تو آپ جلدی تھک ہار کر بیٹھ جائیں گے ۔” لہذا آہستہ آہستہ لیکن مستقل طور چلنے پر ہی سفر کو طے کیا جا سکتا ہے ۔
آج ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں، جس سے انٹرنیٹ یا آئی ٹی کا دور قرار دیا گیا ہے ۔ اس سب کے ہونے کے باوجود صرف ایک چھوٹی تعداد قومی سطح کے مسابقتی امتحانات جیسے IAS, IPS, IRS, IFS, IES, CDS وغیرہ کے لیے درخواست دیں دیتے ہیں ۔ اسی طرح بہت کم تعداد میں ہمارے یہاں بیروزگار افرادJ&K Administrative Services (JKAS) کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہ ان کی مختلف ترجیحات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ کچھ ایم بی بی ایس کو انجینئرنگ پر ترجیح دیتے ہیں اور کچھ سول سروسز کو ایم بی بی ایس یا انجینئرنگ پر ترجیح دیں دیتے ہیں ۔ اکثر و بیشتر یہی دیکھا گیا ہے کہ ہمارے یہاں وادئ کشمیر میں مقیم امیدوار ایم بی بی ایس یا انجینئرنگ کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ چناب ویلی کے نوجوان سول سروسز کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں ۔
حقیقت یہی ہے کہ صوبہ کشمیر سے سول سروس کے امتحانات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی تعداد صوبہ جموں کے مقابلے میں ہمیشہ سے کم رہی ہے ۔ لہذا آخری انتخاب بھی اسی کے مطابق ہو سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ جموں کے ڈودہ، کشتواڑ و دیگر اضلاع سے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کا انتخاب ہو جاتا ہے ۔
حالانکہ دیگر زمروں کے لئے جہاں گریجویشن کی ڈگری کو کم از کم تعلیمی معیار ہوتا ہے ۔ جیسے پنچایت اکاؤنٹس اسسٹنٹ، فنانس اکاؤنٹس اسسٹنٹ (FAA) اور سب انسپکٹر کی آسامیاں ہیں ۔
جن کی زیادہ تر جموں و کشمیر سروس سلیکشن بورڈ کی طرف سے تشہیر کی جاتی ہے، کے لئے وادئ کشمیر سے زیادہ سے زیادہ امیدوار اپنی درخواست جمع کرتی ہیں ۔
اس کے بہت سے وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں سول سروسز میں عدم دلچسپی، مقابلے کا خوف، اہلیت اور نصاب کے بارے میں لاعلمی قابل ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ اس طرح کا وہم ہونا کہ یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے، اس کے دیگر اہم وجوہات میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔
یہاں یہ بات قابل ذکر کرنا چاہوں گا کہ جے اینڈ کے سول سروس امتحان تین درجے کا امتحان ہے ۔ امتحان کا پہلا مرحلہ معروضی قسم کے سوالات پر مبنی
صرف اسکریننگ کے مقصد کا ابتدائی امتحان ہوتا ہے، جس میں جنرل اسٹڈیز اول اور دوم کے دو پرچے شامل ہیں ۔ دوسرا مرحلہ وضاحتی سوالات پر مبنی بنیادی امتحان ہوتا ہے جس میں کل آٹھ پرچے روایتی مضمون کے ہوتے ہیں ۔ جن میں سے ایک زبان کا پرچہ بھی شامل ہوتا ہے، پانچ بنیادی پرچے جنرل اسٹڈیز کے ہوتے ہیں اور آخری دو پرچے اختیاری مضمون (Optional) کے ہوتے ہیں ۔
دوسرے تمام لازمی پرچوں میں حاصل کردہ نمبروں کو درجہ بندی کے لیے شمار کیا جاتا ہے ۔ اور اس سے یہ بھی تعین کیا جاتا ہے کہ کون تیسرے مرحلے میں آگے بڑھتا ہے ۔ اس کے بعد تیسرا اور آخری مرحلہ انٹرویو کا ہوتا ہے اور اسے شخصیت کا امتحان بھی کہا جاتا ہے ۔ مزید وضاحت کے لئے قارئین سول سروسز کے متعلق کسی بھی کتاب کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
جیسے ہی کمشن نے 19 جنوری کو جموں کشمیر کامن کمبینڈ امتحان -2021 کے نتائج کا اعلان کیا، تو فہرست میں غیر مداخلت کے ساتھ صاف شفاف انتخابات دیکھنے کو ملے ہیں ۔ اہل پائے گئے امیدواروں کی فہرست میں میرٹ اور شفافیت نے ایسی بہت سی کہانیاں ظاہر کیں جو بہت سے لوگوں کے لیے بطور تحریک اور حوصلہ افزا ہو سکتی ہیں ۔ جن میں خصوصاً سول سروسز کے خواہشمند امیدوار اپنی زندگی میں کچھ بڑا کرنے کے خواب سجائے بیٹھے ہوں ۔
یہ جان کر سب حیران رہ گئے جب دو بہنیں ہما انجم اور عفرا انجم اپنے بھائی سہیل احمد وانی کے ساتھ RBA کے زمرے میں اس باوقار امتحان میں کامیابی حاصل کیں ۔ وہ ضلع ڈوڈہ کے ایک دور دراز گاؤں کہرہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان میں سے سب سے چھوٹے سہیل نے 1055 پوائنٹس کے ساتھ 111 واں نمبر حاصل کیا جبکہ ہما نے 1050.5 پوائنٹس کے ساتھ 117 واں اور عفرا نے 1034.5 پوائنٹس کے ساتھ 143 واں نمبر حاصل کیا ہے ۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جب مختلف نیوز چینلز کے ذریعے شائع ہونے والے ان کے ذاتی انٹرویو کو شائع کیا گیا، تو دیکھنے اور سننے والوں کے آنسو نکل پڑتے ہیں ۔ ان کی تکلیف دہ جدوجہد، مشکلات، مالی مجبوریاں، عزم اور لگن سننے والوں کو زندگی میں کچھ بڑا اور خاص کام کرنے کی ترغیب دیں دیتی ہے ۔ جب ان کے والد کو کاروبار میں نقصان سے دو چار ہونا پڑا اور معاشی حالت بالکل کمزور ہوگئی، تو رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ دوستوں نے بھی تعاون دینے سے منہ پھیر لیا ۔ ایسی حالات میں بس اللہ کے سوا کوئی یارومددگار نہیں ہوتا ۔ یہ ان کی ماں ہی تھی جو تنہا کھڑی رہی ۔ رپورٹس کے مطابق، ان کی والدہ نے اپنے تمام زیورات اور دیگر سامان فروخت کر دئے ۔ تاکہ وہ اپنے ان تینوں بچوں کی کتابیں اور دیگر مطالعاتی مواد خرید کر لا سکے ۔ اس سے ان تینوں بچوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور انھیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے حوصلہ افزا تحریک مل گئی ۔
آپس میں کتابیں بانٹنے اور ایک کمرے میں پڑھائی کرنے کے باوجود ان کی کامیابی کا راستہ ہموار ہوتا گیا ۔ وہ گھر کے اندر ہی ہمیشہ سے آپس میں ہی مقابلہ آرائی کرتے رہیں تاکہ منزلِ مقصود تک بہ آسانی پہنچ سکیں ۔ سہیل اپنی بہنوں کے ساتھ مل کر خواہشمند امیدواروں کے لیے مشترکہ طور پر یہی پیغام دے گئے ہیں کہ وہ مستقل مزاجی، محنت اور لگن کے ساتھ مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کریں ۔ انہیں اپنی پوشیدہ صلاحیتوں کو سمجھنا چاہیے اور خود پر اعتماد کرنا چاہیے ۔
اسی طرح کی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ایشور دیو کی کامیابی اپنے آپ میں ایک تحریک ہے ۔ وہ بھی ضلع ڈوڈہ کے ایک دور افتادہ گاؤں چِلی (Chilly) سے تعلق رکھتے ہیں اور اس طرح اپنے علاقے کے پہلے افسر بن گئے ہیں ۔ ان کے والد جسمانی طور معذور ہیں اور کریانہ کی دکان چلاتے ہیں ۔ اور کچے مکان میں رہتے تھے ۔ یہاں تک کہ ان کا بڑا بھائی پولیس میں سب انسپکٹر منتخب ہوا ۔ انہوں نے ایشور کی تعلیم کا خرچہ بڑی مشکل سے چلایا ۔ ایشور جموں میں آٹھویں جماعت سے ہی کرائے پر ایک چھوٹے سے کمرے میں رہ رہا ہے ۔ اور ایشور نے بھی اپنی غیر معمولی محنت سے اس امتحان میں کامیابی حاصل کیں ہے ۔ اس کامیابی کی خبر کو سنتے ہی ایشور کے والدین تقریباً 2 گھنٹے تک آنسو بہاتے رہیں ۔ انہوں نے مستقل طور محنت کرنے کے بعد RBA زمرہ میں اپنی پہلی کوشش کے ساتھ اس امتحان کے اندر کامیابی حاصل کیں ہے ۔
بغیر کسی کوچنگ کے، اس نے 1064 پوائنٹس کے ساتھ 103 رینک حاصل کی ہے ۔ ایشور کے لئے اس کے ناخواندہ والدین ہی اس کے رول ماڈل بنے تھے ۔ اور غربت کے باوجود اس نے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کر دیا ۔
جموں شہر میں اڑتیس سال سے آٹو رکشا چلانے والے کی بیٹی مسکان سہنی کی کامیابی کی کہانی بھی اپنے آپ میں ایک جوش و جذبہ پیدا کرتی ہے ۔ معاشی طور پسماندہ ہونے کے ساتھ ساتھ دو کمروں پر مشتمل مکان میں رہنے والی مسکان کی جدوجہد بھی بڑی دلچسپ ہے ۔ مسکان کا کہنا ہے کہ کووڈ کے دوران ان کی مالی حالت اس قدر بری طرح متاثر ہوئی تھی کہ اس سے گریجویشن مکمل کرنے کے لئے فائل سال میں اندراج کرنے کی فیس بھی نہیں تھی ۔ مسکان نے آنسو بہاتے ہوئے دی اسٹریٹ لائن کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے اپنی مشکل گھڑی کا اظہار کیا ۔ اور اسی کشمکش والی زندگی میں امتحان کی تیاری کی کہانی بھی بتائی، جو واقعی خواہش مند امیدواروں کے لئے رہ نمائی کرتی ہے ۔ مسکان نے ایک طرف ٹیوشن دینا شروع کیا، تو دوسری جانب آل انڈیا ریڈیو میں بحثیت Announcer کا کام ایک چھوٹی سی رقم کے عوض میں کرنا شروع کیا ۔ اسی کے درمیان انہوں نے رات کے اوقات کو اپنی محنت کے لئے مناسب سمجھا ۔ ان کی قسمت ایسی تھی کہ اس سے ہمیشہ اچھے لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا اور وہ اس سے کتابیں فراہم کیا کرتے تھے ۔ جس سے انہوں نے EWS زمرے کے اندر 171 واں رینک لے کر 1016.50 پوائنٹس حاصل کئے ہیں ۔ اور اس طرح اپنے ماں باپ کی قسمت بھی بدل دی ۔
نٹی پورہ سرینگر کے ثاقب رشید ڈار نے جنرل کیٹیگری میں 1122.50 پوائنٹس کے ساتھ 10 واں رینک حاصل کی ہے ۔ ثاقب گزشتہ آٹھ سالوں سے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ اس نے اس سے پہلے کئیں انٹرویوز دینے کے بعد ناکامی کا منہ لگنے کے باوجود اپنے مقصد سے ہٹنے کا نام نہیں لیا ۔ اور اب کی بار اس کی محنت، صبر اور عزم رنگ لا گئی ہے اوراس سے اس کا پھل مل گیا ہے ۔ اس نے اپنی کامیابی کے راز کو ان الفاظ میں اظہار کیا کہ "یہاں کوئی سخت قوانین اور اصول نہیں ہیں ۔ تیاری دن کے اوقات کی پابند نہیں، بلکہ انسان کو لگن اور صبر سے مطالعہ کرنا چاہیے”۔
اسی طرح کا کامیاب اور خوش قسمت امیدوار عابد حسین لون ہے ۔ جن کا تعلق ہندواڑہ کے اودی پورہ گاؤں سے ہیں ۔ ان کے والد چائے بیچا کرتے تھے اور وہ سنہ 2021ء میں انتقال کر گئے ۔ عابد نے معاشی طور پسماندہ (EWS ) زمرہ کے تحت اپنی دوسری کوشش میں یہ باوقار امتحان پاس کیا ہے ۔ انہوں نے 1008.50 پوائنٹس کے ساتھ 180 واں رینک حاصل کیا ۔ وہ اس وقت پنچایت اکاؤنٹس اسسٹنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ اس کی ماں تھی جو اس کی رول ماڈل بنی ۔ والد کے انتقال کے بعد اس نے بیٹیوں سمیت تمام ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لے لیں اور آج وہ خوش قسمت ماں بن گئی ہیں ۔ اپنی کامیابی کی کہانی بتاتے ہوئے عابد نے اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا کہ ” وہ اپنے والد کے خواب کو پورا کرنا چاہتے تھے ۔ جس سے اس نے واقعی شرمندہ تعبیر کر دیا ۔ غربت کبھی بھی کامیابی کی رکاوٹ نہیں بن سکتی ہے ۔ انسان کو محنت کرنے اور اللہ پر یقین رکھنے کی ضرورت ہے ۔”
اسی طرح تمام مشکلات کو راستے سے ہٹاتے ہوئے اڈورہ، بارہمولہ کی نادیہ شمیم ایک اور کامیاب بیٹی بن گئی ہے ۔ اس نے ابتدائی مرحلے میں ہی SKUAST میں اپنی باقاعدہ پڑھائی چھوڑ دی تھی ۔ اور اپنے خاندان کی کفالت کے لیے سول سیکریٹریٹ میں درجہ چہارم (Orderly) کی نوکری کا انتخاب کیا ۔ لیکن اس نے اپنی پڑھائی کو IGNOU کے فاصلاتی نظام کے ذریعے سوشیالوجی میں B.A (آنرز) مکمل کیا ہے ۔ اور یہ ثابت کر دیا ہے کہ مالی بحران، مشکلات اور مصیبتیں کسی بھی شخص کو اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی ہیں ۔
نادیہ نے جنرل زمرے کے تحت اپنی پہلی کوشش میں یہ باوقار امتحان پاس کیا ۔ انہیں 1079.50 پوائنٹس کے ساتھ 80 واں رینک مل گئی ہے ۔ یہاں ان کا سول سیکریٹریٹ میں داخل ہونا کسی علاءالدین کے چراغ سے کم نہیں ہے ۔ جس کی وجہ سے اس سے وہاں انتظامی خدمات کا حصہ بننے کے لیے مزید بصیرت اور ترغیب و تحریک ملی اور ساتھ ہی زندگی میں کچھ اچھا کرنے کے لیے تیار ہو گئی۔ ملازمت اور پڑھائی کے درمیان توازن برقرار رکھنا اس کے لیے بہت مشکل تھا ۔ لیکن اس سب کے باوجود بھی اس نے احسن طریقے سے سنبھال لیا ۔ اس نے اپنی کامیابی کی کہانی بتائی کہ اس کے سفر کے پیچھے اس کی ماں، اس کے اساتذہ اور اس کے ساتھی تھے جنہیں اس پر بھروسہ تھا، کہ وہ کچھ خاص کر سکتی ہے ۔ آج وہ اپنی قابل فخر ماں کی قابل فخر بیٹی ثابت ہو گئی ۔
کسریگام، پلوامہ سے تعلق رکھنے والے معاشی طور پسماندہ اور یتیم لطیف احمد منٹو اپنے آپ میں ایک تحریک (Inspiration) ہے ۔ سنہ 2014ء میں ان کے والد کی وفات کے ہوئی تو لطیف نے گھر کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر لیں لی ۔ اب آٹھ سال بعد اس نے اپنے والد کا خواب پورا کر دیا ہے ۔ لطیف نے EWS زمرے کے تحت اپنی دوسری کوشش میں اس باوقار امتحان میں کامیابی حاصل کی اور 1037 پوائنٹس کے ساتھ 138 واں رینک حاصل کیا ہے ۔
چِری بُگ ترال سے تعلق رکھنے والی دُرفشاں ایمن شکیل نے اس سے پہلے اسسٹنٹ رجسٹرار کوآپریٹو کے امتحان میں کامیابی حاصل کی تھیں ۔ جس سے اُن کا حوصلہ مزید بڑھتا گیا ۔ اور اس کے بعد اپنی پہلی کوشش میں اس باوقار امتحان میں بھی کامیابی حاصل کیں ہے ۔ اس نے 1093.50 پوائنٹس کے ساتھ 42 واں رینک حاصل کیا ہے ۔ اسی طرح گاندربل کے پوشکر گاؤں سے تعلق رکھنے والے ایس ٹی زمرہ کے نذیر احمد بجران نے 1055 پوائنٹس کے ساتھ 110 واں رینک حاصل کیا ہے ۔ وہ اس وقت اسسٹنٹ رجسٹرار کوآپریٹو، گاندربل کے طور پر خدمات انجام دیں رہے ہیں ۔
ڈوڈہ کے قبائلی خاندان سے تعلق رکھنے والی سیرت باجی نے بھی ایس ٹی زمرے میں اپنی مستقل محنت کے ساتھ 150 واں رینک کے ساتھ 1029.50 پوائنٹس کے ساتھ یہ امتحان پاس کیا ہے ۔
اس طرح ان تمام کہانیوں کو یہاں بیان کرنے کا مقصد یہی ہے کہ یہ ہمارے نوجوانوں کے اندر ایک ایسی تحریک پیدا کر سکیں کہ وہ بڑی دلچسپی، جوش و جذبہ کے ساتھ، عزم و استقلال سے محنت کریں جو انہیں منزل مقصود تک پہنچا سکیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہے اور محنت کرتا ہے تو اس کے لئے کامیابی ایک قابل رسائی ہدف ہے ۔ یہاں تک کہ اوسط قابلیت والا شخص بھی اپنی مسلسل کوششوں سے کامیابی حاصل کر سکتا ہے ۔ اس بات کو ذہن میں ضرور رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی شخص "چیمپئن” کے طور پر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ چیمپئن بننے کے لئے اس وقت تک باقاعدگی سے مشق کرتے ہیں، جب تک کہ وہ اڑتے رنگوں کے ساتھ اپنی منزل تک نہ پہنچ جائیں ۔
الغرض یہ رزلٹ، جے کے پبلک سروس کمیشن کے نئے چیئرمین اور سینئر آئی اے ایس افسر شری ستیش چندرا جی کی نگرانی اور عزت مآب لیفٹیننٹ گورنر شری منوج سنہا جی کی مجموعی قیادت کا ثمرہ ہیں ۔ جنہوں نے میرٹ کی بنیاد پر اہل پائے گئے امیدواروں کا شفافیت اور غیر مداخلتی انتخابات کی فہرست منظر عام پر لائی ہیں ۔ جو واقعی قابل تعریف اور قابل ستائش ہے ۔ اور ضرورت اس امر کی ہے کہ اسی طرح کی شفافیت، میرٹ کی بنیاد پر، بدعنوانی سے پاک انتخابات آگے بھی برقرار رکھی جائیں ۔ تاکہ غریب پرور بچوں کی محنت بھی رائیگاں نہ ہو جائیں ۔