امریکا نے افغانستان کی خواتین کے حقوق کے دفاع کے لیے افغان نژاد امریکی اسکالر کو نمائندہ خصوصی مقرر کردیا۔خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے سیکریٹری اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا کہ افغان نژاد امریکی اسکالر رینا امیری افغان خواتین، لڑکیوں اور انسانی حقوق کے لیے نمائندہ خصوصی ہوں گی۔رینا امیری نے سابق صدر باراک اوباما کے دور میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں خدمات انجام دی ہیں۔بلنکن نے کہا کہ ریناامیری سنجیدہ مسائل پر مجھے اور صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کے دیگر عہدیداروں کو آگاہ کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ‘ہم پرامن، مستحکم اور محفوظ افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں تمام افغان رہ سکیں اور سیاسی، معاشی اور سماجی اشتراک ہو’۔سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے بیان میں امریکی سیکریٹری اسٹیٹ کا کہنا تھا کہ ریناامیری کے پاس دو دہائیوں کی مہارت اور تجربہ ہے جو افغانستان کو مزید پرامن، مستحکم اور محفوظ بنانے کے ہمارے اہم کام کوجلا بخشیں گی۔طالبان کی جانب سے رواں برس 15 اگست کو افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد امریکا کا خواتین کے حوالے سے یہ پہلا اقدام ہے۔اس سے قبل طالبان نے 1996 سے 2001 کے دوران اپنے پہلے دور حکومت میں خواتین کے کام کرنے اور لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی عائد کی تھی۔تاہم طالبان نے اگست میں دوبارہ حکومت سنبھالنے کے بعد اس کے برعکس اقدامات کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال کئی خواتین سرکاری نوکریوں پر نہیں جاسکیں اور اکثر علاقوں میں لڑکیوں کو سیکنڈر اسکول جانے کی اجازت بھی نہیں ملی۔گزشتہ ہفتے طالبان نے نئی ہدایات جاری کی تھیں، جس میں کہا گیا ہے کہ خواتین کو طویل سفر کے لیے اپنے محرم مرد کے بغیر اجازت نہیں دی جائے گی اور گاڑی والے خواتین کو اس وقت تک سواری نہیں دیں گے جب تک وہ اسکارف نہیں پہن لیتیں۔افغانستان کے عبوری وزیر تعلیم عبدالباقی حقانی نے ستمبر میں اپنے بیان میں کہا تھا کہ افغانستان میں خواتین اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتی ہیں لیکن ان کے کلاس روم مردوں سے الگ اور اسلامی لباس لازمی ہوگا۔انہوں نے کہا تھا کہ طالبان 20 سال پیچھے جانا نہیں چاہتے ہیں اور جو کچھ آج موجود ہے اس کے مطابق آغاز کریں گے۔عبدالباقی حقانی نے جامعات میں خواتین کی تعلیم پر پابندیوں کے حوالے سے کہا تھا کہ حجاب لازمی ہوگا لیکن انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا صرف سر ڈھانپنا ہوگا یا پورے چہرے کا نقاب لازمی ہوگا۔انہوں نے کہا تھا کہ خواتین اور مرد طلبا کو الگ الگ کردیا جائے گا اور ہم لڑکیوں اور لڑکوں کو مل کر پڑھنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہم مخلوط تعلیم کی اجازت نہیں دیں گے۔