آل انڈیا مسلم مجلس نے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں مسلم طالبات کے حجاب پر پابندی کو مذہبی آزادی میں مداخلت قرار دیا ہے اور سوال کیا کہ کیا تعلیمی اداروں میں مہنت کا لباس پہن کر داخلے پر پابندی ہوگی؟۔یہ بات آج یہاں جاری ریلیزمیں کہی گئی ہے۔ ریلیز کے مطابق مسلم مجلس کے قومی صدر پروفیسر ڈاکٹر بصیر احمد خاں نے دعوی کیا آرایس ایس اور دیگر شدت پسند ہندو تنظیموں کے طلباء نے اس کے خلاف جلوس نکال کر اور جے شری رام کے نعرے لگاکر مسلم طالبات کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرکے اس معاملے کو ہندو مسلم کارنگ دے کر فرقہ پرستی پھیلائی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ مسلم طالبات کے حجاب پہننے سے ہند وطلباء کو کیا پریشانی ہے۔دراصل یہ سارا ڈرامہ دنگا کرانے کی سازش ہے اور اس بہانے بی جے پی مسلمانوں کے خلاف ماحول بنا کر یوپی اور دیگر صوبوں میں الیکشن جیتنا چاہتی ہے کیو نکہ بی جے پی کے تمام بڑے لیڈر نفرت پھیلانے والی تقریریں کررہے ہیں اور الیکشن کمیشن کوئی کاروائی نہیں کر رہا ہے۔ ڈاکٹر بصیر احمد نے مذہبی معاملات میں عدالتوں کی دخل اندازی کو بھی غلط قرار دیا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ خود اسلامی اسکا لر ہیں اور جامعہ ہمدرد میں اسلامک اسٹڈیز کے ہیڈ اور اندرا گاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر رہ چکے ہیں۔لہذا وہ پوری ذمہ داری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ حجاب کا حکم قرآن میں موجود ہے اور انہوں نے الزام لگایا کہ بی جے پی تعلیمی اداروں کو بھگوارنگ میں رنگنے کی سازش کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے برادران وطن کے بہادر لوگوں کے ساتھ مل کر انگریزوں کوہندوستان سے بھکایا تھا اور ہندو توا کے ماننے والے انگریزوں سے معافی مانگ رہے تھے۔