تحریر: فاضل شفیع فاضل
اکنگام انت ناگ
آج سے تقریباً 19 سال پہلے (2004) کی بات ہے جب میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا، صبح تڑکے ہی پڑھنے کا شوق عام تھا۔ چنانچہ میں ایک گاؤں میں رہتا تھا ہمارے پاس دن کا اخبار تقریبادن کے بارہ بجے پہنچتا تھا۔ بڑی بے صبری کے ساتھ اخبار کا انتظار رہتا تھا۔ شہر کے لوگ تو صبح سویرے ناشتے پہ اخبار پڑھنے سے لطف اندوز ہوتے تھے اور ہم دن کے کھانا کھانے کے وقت پر تازہ ترین خبروں سے آگاہ ہوتے تھے۔ وہ زمانہ صحافت خاص طور پر خبر نویسی کا بہترین اور یادگار زمانہ تھا۔ اخبار پڑھنے کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا اور کبھی کبھی اخبار نہ ملنے پر گھر والوں سے جھگڑتا بھی تھا۔اس وقت اخبار کی قیمت 2 روپیہ تھی۔ حالانکہ اتنی زیادہ قیمت تو نہیں کہہ سکتےہاں یہ ضرور ہے ایک اخبار کی ہزاروں کاپیاں فروخت ہوتی تھیں جن میں( قیمتی) اشتہارات بھی شائع ہوتے تھے اور ایک اخبار نویس آرام سے اپنی زندگی شان و شوکت سے بسر کر سکتا تھا۔
وقت بدلتے دیر کہاں لگتی ہے۔ بیس پچیس سال کے قلیل عرصے میں ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زیر تسلط آچکی ہے۔ گویا ساری دنیا موبائل فون اور انٹرنیٹ کے زلف گرہ گیر کی اسیر ہو چکی ہے۔ دیگر اشیاء کی طرح موبائل فون انٹرنیٹ بھی بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ اپنے میں نقصان اور ضرر کے پہلو لیے ہوئے ہے۔ گویا موبائل فون اور انٹرنیٹ نے صحافت خاص کر اخبار نویسی کی دنیا ہی بدل کے رکھ دی۔ جس اخبار کا میں بے صبری کے ساتھ انتظار کرتا رہتا تھا، آج کل ای پیپر بن چکا ہے وہ رات کے بارہ بجے ہی موبائل فون میں دستیاب رہتا ہے اور قابل غور بات یہ ہے کہ ای پیپر کی کوئی قیمت ہی نہیں ہوتی مطلب یہ ہوا کہ اخبار نویس کی محنت اور لگن کی کوئی قدرو قیمت نہیں رہی۔ کیا کبھی ہم نے سوچا وہ اخبار جو آج سے 15 سال قبل دو روپے میں دستیاب تھا، آج کل بازار میں ملنا مشکل ہو گیا ہے۔ اخبار فروشی کا پیشہ تو گویا ختم ہی ہوچکا ہے۔
آج بہت عرصے بعد بازار گیا کہیں کوئی اخبار فروش نہ دکھا۔ بالآخر بازار کے کونے میں ایک اخبار فروش ہاتھ میں کانگڑی لیے بڑا مایوس کھڑا تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور میں نے جیب سے دس روپے کا نوٹ نکال کر کہا بھائی مجھے دو اخبار دیجئے۔ اخبار فروش نے میرے ہاتھ میں دو اخبار تھما دیے اور کہا جناب میرے پاس چُھٹا نہیں ہے۔ میں نے بڑی حیرت سے پوچھا کیوں بھائی میں نے تو محض دس روپےہی دیے۔ اخبار فروش بڑی عاجزی سے بولا جناب آپ کو چھ روپیے لوٹانے بھی ہیں۔
میں نے کہا ایک اخبار کی قیمت کتنی ہے
وہ ہنسا اور بولا جناب” دو روپیہ”