شیخ افلاق حسین
سیموہ ترال
ﷲ تعالیٰ نے انسان کو بہت ساری نعمتوں سے نوازا ہے ، جس میں بڑی نعمت والدین ہیں۔اللہ کے بعد انسانوں میں سب سے مقدم حق والدین کا ہے۔ اولاد کو والدین کا مطیع، خدمت گزار اور ادب شناس ہونا چاہیے۔ اولاد کے لیے لازم و ملزوم ہے کہ وہ اپنے والدین کی عزت کرے اور ان سے ادب کے ساتھ بات کرے نہ کہ بے ادبی کا مظاہرہ کرے۔ جیسا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : "والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اگر تمہارے پاس اُن میں سے کوئی ایک، یا دونوں، بوڑھے ہو کر رہیں تو انہیں اف تک نہ کہو، نہ انہیں جھڑک کر جواب دو، بلکہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو”۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جبریل امین نے کہا اس شخص کی تباہ و بربادی ہوجائے ، میں نے پوچھا کس کی؟ تو اس نے جواب دیا : جس نے اپنے والدین کو بڑھاپے میں پایا ، مگر اُن کی خدمت کرکے جنّت کا مستحق نہ بن سکا۔ میں نے اس پر بھی آمین کہا۔
دوسری ایک روایت میں عبداللہ ابنِ مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے دریافت کیا : ﷲ تعالیٰ کو کون سا عمل سب سے زیادہ پسند ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : وقت پر نماز پڑھنا۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : والدین سے حسنِ سلوک کرنا۔ میں نے عرض کیا : پھر کون سا ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا”۔
والدین کا تذکرہ کرنا کہ یہ ﷲ تعالیٰ کے نزدیک ایک بہترین عمل ہے، اس سے والدین کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن آج کے والدین اپنے اولادوں سے کافی ناخوش نظر آرہے ہیں وجہ صرف یہی ہے کہ ہمیں اپنے ماں باپ کی وہ قدر نہیں ہے، وہ عزت نہیں ہے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔
والدین پر بھی ایک ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے سرفراز کرے تاکہ یہ اولاد اپنے والدین کی قدروقیمت سے واقف ہو۔ اس تعلیم سے یہ اولاد اپنے والدین کے انتقال کے بعد بھی ان سے حسنِ سلوک کرسکتا ہے۔ ایک انصاری نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا کہ میرے ماں باپ کے انتقال کے بعد بھی ان کے ساتھ میں کوئی سلوک کرسکتا ہوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں چار سلوک :- ان کے جنازے کی نماز ، ان کے لیے دعا و استغفار ، ان کے وعدوں کو پورا کرنا ، ان کے دوستوں کی عزت کرنا اور صلہ رحمی جو ان کی وجہ سے ہو۔ یہ ہے وہ سلوک جو ان کی موت کے بعد بھی ، تو ان کے ساتھ کرسکتا ہے۔ ﷲ تعالیٰ نے انسان کو اس کی تلقین کی ہے کہ وہ اپنے والدین کے لیے دُعا کرے۔ ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے:
دعا کیا کرو کہ "پروردگار، ان پر رحم فرما جس طرح اِنہوں نے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالا تھا”۔ خوشگوار یادیں ہیں۔ محبت کی یادیں بچپن کی یادیں اور ماں اور باپ کی محبت کی یادیں۔ لیکن اس یاد سے انہیں سمجھایا جا رہا ہے کہ اب یہ مشفق والدین اسی طرح تمہاری شفقت کے محتاج ہیں۔ جس طرح تم تھے اور دعا اس لئے کی گئی کہ انسانی شفقت و رحمت کے مقابلے میں اللہ کی رحمت و شفقت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اللہ کی رحمت و شفقت کا دائرہ نہایت ہی وسیع ہے اور انہوں نے اپنی اولاد کے ساتھ جو محنت و مشقت کی ہے اس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے۔ اولاد کے لئے یہ ممکن ہے کہ والدین کو وہ رحم اور شفقت دے سکیں جس کے وہ حق دار ہیں۔
حافظ ابوبکر نے اپنی سند کے ساتھ روایت کی ہے۔ انہوں نے حضرت برید سے انہوں نے اپنے والد سے کہ ایک شخص طواف میں تھا اور وہ اپنی والدہ کو اٹھا کر طواف کرا رہا تھا۔ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا کہ کیا میں نے اسی طرح اپنی والدہ کا حق ادا کردیا ہے ؟ تو آپ نے فرمایا ” نہیں “۔ بلکہ ایک سانس کے برابر بھی نہیں۔
لیکن ہمارے معاشرے میں والدین کہ وہ عزت نہیں ہورہی ہے جو انہیں اپنے مالک نے عطا کی تھیں، وہ تعلیم ہم بھول چکے ہیں، جو ﷲ تعالیٰ نے ہمیں ان کے حوالے سے دی تھیں۔ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے معاشرے کا اجتماعی اخلاق ایسا ہونا چاہیے جو اولاد کو والدین سے بے نیاز بنانے والا نہ ہو بلکہ ان کا احسان مند اور ان کے احترام کا پابند بنائے، اور بڑھاپے میں اسی طرح ان کی خدمت کرنا سکھائے جس طرح بچپن میں وہ اس کی پرورش اور ناز برداری کرچکے ہیں۔
ﷲ تعالیٰ ہمیں ماں باپ کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین