رینگر: سنیچر، 20 مئی، 2023: مرینگو ایشیاء ہاسپٹلس اور ڈاکٹر پُنیت سنگلا، جگر ٹرانسپلانٹ سرجن نے اے جی آئی، اوریزن ہاسپٹل میں گیسٹرسٹی، لدھیانہ روڈ، 5ویں منزل اوریزن ہاسپٹل، بیروال روڈ، لدھیانہ کے اشتراک سے جگر کی بیماری والے مریضوں کے لیے او پی ڈی فیسلٹز لاؤنچ کر دیا ہے۔ اس او پی ڈی کو جگر ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر پُنیت سنگلا اور ان کی ٹیم لیڈ کریں گے اور ان کے مریضوں سے ملنے کا وقت صبح 11 بجے سے 4 بجے تک رہے گا۔ اوریزن اسپتال کی اے جی آئی ٹیم کی نمائندگی ڈاکٹر نرمل جیل سنگھ مالہی، ڈاکٹر راجیو گروور اور جگجیت دھنگڑا کریں گے۔
40 سالہ ستویندر سنگھ (بدلا ہوا نام) کو لدھیانہ سے ڈاکٹر پنیت کے پاس قدیم جگر کی ناکامی، گردے کی ناکامی، کووڈ، متعدد بی پی سپورٹ ادویات، اور پیٹ کی دیوار سے خون بہنے جیسی بیماری کی حالت میں شفٹ کیا گیا تھا۔ ایسے مریضوں کو شفٹ کرنا ہی بذات خود ایک جوکھم بھرا کام ہوتا ہے؛ انہیں تقریبا 400 کیلو میٹرز سے کامیابی کے ساتھ لایا گیا۔ متعدد خصوصیات پر حامل ٹیموں کے ذریعہ مریض کو آئی سی یو میں بہتر کیا گیا۔ ان کے لیور کا ٹرانسپلانٹ کیا گیا، اور ان کو ان کی بیوی نے جگر کا عطیہ کیا تھا۔ فی الحال وہ پوری طرح صحتیاب ہوگئے ہیں اور واپس معمول کی زندگی گزار رہے ہیں، اور سرگرمی کے ساتھ اپنا کاروبار سنبھال رہے ہیں ۔ عطیہ کنندہ بھی معمول کی زندگی گزار رہی ہے۔ متعدد بیماریوں سے جوجھ رہے اس مریض کا کیس انتہائی چیلنجنگ تھا، سرجن کی ٹیم نے انتہائی جوکھم والی سرجری کو انجام دیا کیونکہ مریض انتہائی بیمار تھا اور اگر 1-2 دنوں کے اندر انہیں یہاں نہیں لایا جاتا تو ان کی موت بھی واقع ہوسکتی تھی۔
لدھیانہ میں اس طرح کے کئی کیسز دیکھے گئے ہیں اور بدقسمتی سے پنجاب میں اعضاء کے عطیہ کی کمی کی وجہ سے جگر کی ناکامی کے آخری مرحلے والے مریضوں کو باحیات عطیہ دہندگان پر منحصر ہونا پڑتا ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ جگر دوبارہ پیدا کرنے والا (ریجنریٹیو) عضو ہوتا ہے لہذا چیلنجز کچھ حد تک کم ہوجاتے ہیں۔ لدھیانہ میں تقریباً 60-70 مریض جگر کی بیماریوں کے علاج کے لیے بڑے اسپتالوں میں آتے ہیں، جنمیں سے زیادہ تر کو جگر کی پیوند کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ لدھیانہ میں ہر سال سڑک حادثے میں ہونے والی اموات کی بھی بڑی میں تعداد درج کی جاتی ہیں اور پھر بھی ملک کے شمالی حصے میں اعضاء کے عطیہ کا نظام انتہائی ناقص ہے۔
جگر انسانی جسم کے سب سے بڑے اعضاء میں سے ایک ہے اور یہ کچھ انتہائی اہم کاموں جیسے کہ عمل انہضام، قوت مدافعت اور میٹابولزم کو برقرار رکھنا، خون کا فلٹریشن اور زہریلے مادوں کا اخراج، وٹامنز اور معدنیات کی ذخیرہ اندوزی، اور جسم میں غذائی اجزاء کی ذخیرہ اندوزی کا کام انجام دیتا ہے۔ اس عضو کو جسم کا کچن بھی کہا جاتا ہے جس پر مختلف کاموں اور سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے جسم کو توانائی فراہم کرنے کے ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر پُنیت سنگلا، ڈایریکٹر اینڈ ایچ او ڈی- لیور ٹرانسپلانٹ، مرینگلو ایشیاء ہاسپٹلس کہتے ہیں، ” جو کوئی سرجن اعضاء کی پیوند کاری کے ذریعہ مریضوں کا علاج کرتا ہے، ان کے لیے متاثرہ مریضوں کی صحت کی بہترین کارکردگی کا مشاہدہ کرنے سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوسکتی۔ جگر واحد عصبی عضو ہے جسمیں قابل ذکر تخلیق نو کی صلاحیت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں جگر واپس ترقی کرتا ہے۔ اس ری جنریٹیو صلاحیت کی وجہ سے ہی جزوی جگر کی پیوند کاری ممکن ہوپاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک حصہ یا جگر کا لوب ٹرانسپلانٹ ہوجاتا ہے تو یہ مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں میں پھر سے قوت بخشتا ہے۔ مریضوں میں جگر کی پیوند کاری کے متعدد اسباب ہوتے ہیں۔ اس ایونٹ کے ذریعہ ہماری کوشش جراحی کے طریقہ کار کے بارے میں کسی بھی قسم کے خدشات یا خطرات کو دور کرنا ہے۔ ہمارا مقصد اپنے مریضوں کو اس بات سے آگاہ کرنا اور شعور پیدا کرنا ہے کہ جراحت کسی بھی فرد کو کس طرح فائدہ پہنچا سکتی ہے اور زندگی بہتر بنانے اور محفوظ مستقبل کے لیے اس طرح کی سرجری کی کیوں ضرورت پڑتی ہے۔”
ڈاکٹر پُنیت سنگلا مزید کہتے ہیں، "پیوند کاری کے شعبے میں گزشتہ سالوں میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ مستقبل کے تحقیقی کام کو مزید آگے لے جانے اور مزید جانیں بچانے کے لیے ہمیں اعضاء کے عطیہ کے تعلق سے خوف اور خدشات کو دور کرنے کے لیے مزید بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مرینگو ایشیاء ہاسپٹلس میں لیور ٹرانسپلانٹ ٹیم لیور ٹرانسپلانٹس میں سینٹر آف ایکسیلینس کے لیے تشکیل دی گئی ہے۔ اور یہاں کے ڈاکٹر انتہائی خراب ہوچکے جگر والے مریضوں کو بھی صحتیاب کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ جگر پیوند کاری والے سرجنوں کی ٹیم نے مختلف مرض سے متاثرہ اعضا والے مریضوں کا علاج کیا اور ان میں سے ہر ایک کا علاج کافی چیلنجنگ بھرا تھا۔ لیکن طبی عمدگی جس سے ٹیم لیس ہے، کے ساتھ مریضوں کا کامیاب جراحت کی مدد سے علاج کیا گیا اور وہ مریض آج ایک صحتمند زندگی گزار رہے ہیں۔”
ڈاکٹر نرمل جیت سنگھ ملہی، اوریزن ہاسپٹل، نے کہتے ہیں، مرینگو ایشیاء ہاسپٹلس کی ٹیم کے ہمارے ساتھ ہاتھ ملانے سے ہم ایک ایسا ماحولیاتی نظام قائم کرنے کی توقع کر رہے ہیں جہاں جگر کی بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو بہترین نتائج کے ساتھ مناسب علاج ملےگا۔ شہر نے ایسے مریضوں پر طبی فضیلت کی کمی کے اثرات کا مشاہدہ کیا ہے جو کئی وجوہات کی بناء پر شہر سے باہر سفر کرنے سے قاصر ہیں۔ اس اشتراک سے ہمارا مقصد ان سینکڑوں لوگوں کے لیے ایک امید کی کرن پیدا کرنا ہے جو اب اپنی دہلیز پر طبی امداد حاصل کر پائیں گے۔”
یہ ایک چیلنجگ بھرا کام ہے کیونکہ لدھیانہ میں بڑی تعداد میں مریض جگر کی پیوند کاری کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں، عضو نہ ملنے کی وجہ سے موتیں بھی ہو رہی ہیں۔ لدھیانہ کے صرف 2-3% مریضوں کا ہی لیور ٹرانسپلانٹ ہو پاتا ہے اور باقی اپنی پیوند کاری بھی نہیں کروا پاتے۔ پنجاب میں اعضاء کے عطیہ کی شرح تقریباً صفر ہے اور جگر یا گردے کی پیوند کاری کے منتظر مریضوں کو اعضا کے حصول کے لیے جنوب یا مغرب کی طرف جانا پڑتا ہے۔