سری نگر:3 جون: جموں و کشمیر کے پلوامہ ضلع میں ایک کینسر کے مریض کے خاندان کی طرف سے مدد کے لئے مایوس کن اپیل کرنے کے بمشکل 24 گھنٹوں کے اندر، کراو¿ڈ فنڈنگ سے 80 لاکھ روپے جمع ہوئے اور اس سے زیادہ خاندان کے بینک اکاو¿نٹ میں ڈالا گیا۔اس دوران کشمیریوں کی اس کوشش کو سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر سراہا گیا ہے جبکہ متاثرہ لڑکی کے افراد خانہ نے لوگوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے عوام سے مزید امداد نہ کرنے کی اپیل کی ہے ۔کشمیر نیوز سروس ( کے این ایس ) کے مطابق پلوامہ ضلع میں ایک کنبہ جو اپنی بیٹی کا لیوکیمیا (بلڈ کینسر) کا علاج کر رہا تھا، خرچ کرنے کے لیے جو کچھ بھی تھا اسے بیچنا پڑا۔ ان کے پاس علاج کے لیے کچھ نہیں تھا۔خاندان کی جانب سے سوشل میڈیا پر فوری مدد کی اپیل کرنے کے بعد ان کے بینک اکاو¿نٹ میں رقم اس طرح آنا شروع ہو گئی جیسے انہوں نے علاءالدین کا جادوئی چراغ رگڑا ہو۔24گھنٹے سے بھی کم وقت کے اندر، کراو¿ڈ فنڈنگ کے ذریعے 80 لاکھ روپے جمع کرائے گئے اور خاندان کو سوشل میڈیا پر اپنے سرپرستوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اور ان سے مزید رقم بھیجنے سے روکنے کے لیے ایک اور اپیل کرنی پڑی۔کشمیر میں چند دہائیوں تک اس طرح کی باتیں سننے کو نہیں ملتی تھیں۔ ماضی میں سماجی ذمہ داری کا احساس کم ہی ہوتا تھا سوائے اس کے کہ کسی غریب آدمی کو سڑک پر بھکاری کو کھانا یا چلر دیا جاتا۔1990 کی دہائی کے اوائل میں جب سے یہاں تشدد شروع ہوا ہے تب سے کشمیری سماج کو آگ سے بپتسمہ دیا گیا ہے کیوں کہ یہاں پر تشدد، موت، تباہی، سماجی رابطے کے نقصان وغیرہ کی ناقابل برداشت مقدار ہے۔ موت اور تباہی کو قریب سے دیکھ کر کشمیریوں نے سماجی ہم آہنگی اور یگانگت کی قدر جان لی ہے،” ڈاکٹر فرح قیوم نے کہا، جو کشمیر یونیورسٹی میں سماجیات پڑھاتی ہیں۔اگر آپ کے پڑوسی کو گزشتہ 33سالوں کے دوران تمام وسیع تشدد کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑا تھا، تو وہ آج آپ ہو سکتے ہیں۔ اس نے ایک سے زیادہ طریقوں سے مقامی لوگوں کی سماجی اخلاقیات کو مضبوط کیا ہے۔ انفرادی ذمہ داریوں کے علاوہ، کشمیریوں نے سمجھ لیا ہے۔ اجتماعی ذمہ داری کی قدر اور اہمیت ہے یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس طرح کی مدد کرنے کے لئے کشمیر ہمیشہ سے جانا جاتا ہے لیکن گزشتہ روز جب اس رقم کے مکمل ہونے کے کی خبر سوشل میڈیا آئی تو ہر کوئی یہی کہتا تھا کشمیریت زندہ باد۔یہی وجہ ہے کہ وادی میں معتبر یتیم خانے اور خیراتی ادارے ہیں۔ 1990سے پہلے ہمارے پاس صرف ایک ہی ادارے اولڈ ایج ہوم تھے اور چند یتیم خانے سرکاری خرچ پر چلتے تھے،” انہوں نے وضاحت کی۔کراو¿ڈ فنڈنگ، این جی اوز صحت کی دیکھ بھال، بچوں کی دیکھ بھال اور کشمیر میں سول سوسائٹی کے دیگر طبقات میں قابل ستائش کام کر رہی ہیں یہ ثابت کرتی ہے