سید اعجاز
ترال//جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال کے بس اسٹینڈ میں قریب 48سال سے قائم 54دکانوں کوسال2020ءمیں انتظامیہ کی جانب ایک انہدامی کارروائی کے دوران منہدم کیا گیا ہے جس دوران تاجروں کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ وہ انہدامی ٹیم کو پناتعاون کر کے انہیں3ماہ میں باز آباد کارری کے حوالے سے باضابط طور اقدامات اٹھائے جائیں گے۔تاہم تین سال کا وقت گزر جانے کے باجود یہاں اس حوالے سے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا ہے جس کی وجہ سے 54دکانوں کے ساتھ منسک ایک سو کے قریب کنبے فاقہ کشی پر مجبور ہو گئے ہیں ۔جبکہ کئی دکانداروں نے تنگ آکر اب پٹری پر روز گار کمانا شروع کیا ہے ۔دکانداروں کے مطابق بس اسٹینڈ ترال میں مختلف سماجی اور مذہبی اداروں کی جانب سے قریب48سال پہلے بس اسٹینڈ ترال میں دکان تعمیر کر کے مختلف لوگوں کو کرایہ پر فراہم کئے ہیںاور یہ دکانچار دہائیوںتک سرکاری اراضی پر کھرا تھے جہاں ایک حصے میں54دکانوں میں متعدد لوگ اپنا روز گار کماتے تھے ۔اس دوران سال2017ءمیں یہاں کے ٹریڈ یونین نے اس وقت کی سرکار سے باضابط طور ایک منصوبہ پیش کیا جس میں یہاں کچھ دکانوں کو اٹھانے لیکن اسے قبل یہاں متاثر ہو رہے دکان داروں کی باز آبادی کاری کے حوالے سے پہلے ہی اقدامات اٹھانے کی اپیل کی ہے ۔ٹریڈیونین کے مطابق اس وقت سرکار نے اس حوالے سے باضابط طور عوامی فیصلہ مان لیا اور جگہ کی نشان دہی بھی کی گئی ہے انہوں نے بتایا یہ فیصلہ بھی ہوا کہ دکاندار خود دکانیں بنائیں گے اور کرایہ سرکار کو دیں گے جس پر اس وقت کی سرکار نے رضا مندی بھی ظاہر کی ہے۔اس دوران سال2018ءمیں جب سرکار گر گئی تو یہ معاملہ بھی ٹھندا ہوا۔اس دوران سال2020ءمیں انتظامیہ نے یہاں اچانک54دکانوںپر بلڈوزر چلایا جس کی وجہ سے یہاںجہاں یہ دکاندار بے روز گار ہوئے وہی دوسری جانب اس وقت بیشتر دکانداروں نے مال کو گھروں میں رکھا ہے جو خراب ہو ا اور دکاندار ایک بڑے نقصان سے دو چار ہوئے ۔ایک ریڈی میڈ گارمنٹس چلانے والے دکاندار نے بتایا اس وقت ہم نے کپڑے گھر لئے جو بعد میں کسی نے استعمال کرنا نہیں مانا جبکہ کچھ تاجروں کا مال گھروں خراب ہوا ۔انہوں نے بتایا بیشتر تاجروں نے بنکوں سے قرضہ حاصل کر کے کار بارچلایا تھا تاہم اب وہ قسطادا نہ کرنے کی وجہ سے بنک ڈی فالٹر بن گئے ۔دکانداروں نے بتایا ایک دکانداروں نے اپنی اراضی بیچ کر قرضہ ادا کیا ہے جبکہ ان کے قرض پر مسلسل سود چڑ رہا ہے ۔ متاثرہ دکانداروں نے بتایا انہوں نے اب چند دکانداروں نے گھروں کا گزارہ چلانے کے لئے پٹری پر بیٹھنا شروع کیا ہے جہاں انہیں بارشوں میں چھتری استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے انہوں نے بتایا جبکہ باقی محکمے کے لوگ بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ اس دوران سیول سوسائٹی کے چیر مین اشفاق احمد کار نے بتایا اب محکمہ لوکل باڈیز یہاںاپنے چند دکانوں پر دوسری منزل تعمیر کرنا چاہتا ہے لیکن مزکورہ دکان پہلے ہی خستہ حال ہے اور انہیں اتنا مضبوط نہیں تعمیر نہیں کیا گیا ہے جس کا پہلے ہی محکمہ آر اینڈ بی نے ایک رپوٹ دیاہے۔انہوں نے کہا مزکورہ دکان دوسرے منزل کا وزن برداشت نہیں کر سکتا ہے جس کی وجہ سے اور دکان ختم ہو سکتے ہیں اونتیجے کے طور مزید لوگ بے روز گار ہو ںگے ۔انہوں نے کہا ہمیں اطلاع ملی ہے کہ اس پروجیکٹ کے لئے تین کروڑ سے زیادہ رقم واگزار کی گئی ہے انہوں نے کہا ہمارا ماننا ہے کہ ٹیکس کا پیسہ ضائح ہوجائے گا ۔ اشفاق احمد کار نے بتایا کہ اگر لوکل باڈیز کو یہاں دکان تعمیر کرنے ہیں لیکن وہ جہاں دکانوں کو دوسری منزل بنانا چاہتے ہیں ان سب دکانوں کو از سر نو تعمیر کر کے تین منزلہ دکانوں کو تعمیر کریں ہے ۔چیر مین نے بتایا کہ انہوں نے دائر ایکٹر لوکل باڈیز کو ساڑے تین کروڑ روپے والے پروجیکٹ کی مخالفت کر کے ایک نیال منصوبہ تعمیر کرنے کی گزارش کی ہے اور ایک نیال پلان پیش کر کے ایک میٹنگ طلب کرنے کی گزارش کی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ ہم ایساشاپنگ کمپلس تعمیر کریں گے جس سے دکانداروں کے ساتھ ساتھ محکمہ بلدیات کو فائدہ پہنچے اور ٹیکس کا یہ پیسہ ضائح نہیں ہونے دیں گے ۔ اور ضرورت پڑنے پر عدالت کا دروازہ بھی کٹھکٹھائیں گے۔سیول سوئٹی نے بتایا اس کے علاقے میں ایک پارکنگ ،ایک غیر ضروری بیت الخلا پر لاکھوں روپے ضائح کئے ہیں جس کی تحقیقات ہونی چاہے۔ اس حوالے سے محکمہ آر اینڈ بی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس حوالے سے یہاں شاپنگ کمپلکس کے تعمیر کو منظور ہوئی جس کے لئے ٹنڈرنگ بھی ہوئی اور پورجیکٹ کا کل کاسٹ4.7کروڑ ہے انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ سوالات اٹھانے کے بعد ایک تکنکی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو آخری فیصلہ لے گی جس کے بعد باضابط طور کام شروع ہوگئی یا کچھ نیا ہوگا۔۔۔