سری نگر26ستمبر شعبہ اردو کشمیر یونی ورسٹی کی جانب توسیعی خطبات کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے ۱۲،۲۲ اور ۵۲ستمبر/۳۲۰۲ئکو معاصر ادبی تنقید کے اہم اور مستند ناقد، سابق صدر شعبہ اردو وسنٹرل یونی ورسٹی کشمیر پروفیسر قدوس جاوید نے بالتر تیب ”متن، معنی اور تھیوری“،”اردو کی نئی شعریات“ اور معاصر تنقید: حدود اور امکانات“جیسے عناوین کے تحت توسیعی خطبے دئیے ہیں۔جن کی صدرات صدر شعبہ اردو پروفیسر عارفہ بشریٰ صاحبہ اور جوائنٹ رجسٹرار، کشمیر یونی ورسٹی ڈاکٹر روی کمار صاحب نے فرمائی جب کہ شعبے کے اساتذہ میں ڈاکٹر مشتاق حیدر صاحب، ڈاکٹر کوثرسول صاحبہ،ڈاکٹر الطاف انجم صاحب کے ساتھ ساتھ دیگر اساتذہ میں ڈاکٹرمحمد ذاکر، ڈاکٹر ریاض احمد کمار، ڈاکٹر ا±ویس احمد، ڈاکٹر روحی سلطان، ڈاکٹر راکیش کمار اور ڈاکٹر محمد یونس موجود رہے۔ علاز ہ ازیں ان توسیعی خطبات میں شعبے کے طلبا و طالبات کے ساتھ ساتھ ریسرچ اسکالروں نے بھی شرکت کی۔ گوگل میٹ کے ذریعے ملک کی دیگر یونی ورسٹیوں کے اردو ریسرچ اسکالروں اور محبان اردو نے اپنی شرکت کو یقینی بنا کر شعبہ اردو، کشمیری یونی ورسٹی کی جانب توسیعی خطبات کے اس سلسلے کو خوش آئند قدم ثابت کیا ہے۔ پہلے خطبے بہ عنوان ”متن، معنی اور تھیوری“ کے تحت پروفیسر قدوس جاوید صاحب نے متن، معنی اور تھیوری پر روشنی ڈالتے ہوئے جہاں ادب کے دیدہ امکانات کی استحکامیت پر توجہ مبذول کرائی ہے؛وہیں اس بات پر بھی ارتکازکیا ہے کہ ادب کے تعین قدر اور تفہیم و تعبیر اور تجزیہ و توضیح میں ادبی تنقید کس طرح متن سے نادیدہ امکانات کو نہ صرف منکشف کرتی ہے بلکہ متن کی اَن کہی باتوں یا مخفی و پوشیدہ عناصر کو تلاشتی ہے۔ ا±نھوں نے معنی خیزی کے عمل کی امتیازی حیثیت پر روشنی ڈالتے ہوئے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ ادبی تنقید کس طرح قر?ت کی عمل سے متن یعنی فن پارے کی تمام تر تہوں کو کھول کر تخلیقیت کے اصل جوہر تک پہنچ کر فن کار کے تخلیقی تجربے تک قاری کی رسائی کو ممکن بنا دیتی ہے۔اس ضمن میں ا±نھوں نے درست معنی کی یافت میں قرآت کی اہمیت کومسلم قرار دیتے ہوئے زبان کے تخلیقی برتاو¿ پر ارتکاز کرتے ہوئے یہ واضح کر دیا ہے کہ کس طرح زبان اپنے مجرد اور تخلیقی عمل سے فن پارے(ادبی تخلیق) کو نامانوس اور اجنبی بنا دیتی ہے؛جس کے نتیجے میں الفاظ گنجینہءمعنی کا طلسم بن جاتے ہیں۔دوسرے خطبے بہ عنوان”اردو کی نئی شعریات“کے تحت ا±نھوں نے شعر کی تعریف کرتے ہوئے شعر کی داخلی اور خارجی ہیئتوں پر روشنی ڈالتے ہوئے شعری تشریط کے ساتھ ساتھ شعر کی اندرونی وحدت کا تذکرہ کیا ہے۔اس اندرونی وحدت سے قاری شعر کی شعریت سے مانوس ہوجاتا ہے۔ ا±نھوں نے اس بات کی طرف بھی توجہ دلا دی کہ شعر کے ظاہری حسن سے شعر کی تاثراتی حدود متعین ہوتی ہیں، وہیں شعر کی داخلی ہیئت سے اصل معنی کا انکشاف ہوجاتا ہے۔ اس ضمن میں ا±نھوں نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ شعر(ادبی تخلیق) اپنے ماحول اور معاشرے کے ساتھ ساتھ تخلیق کار کے ذہنی محرکات اور نفسیاتی کیفیات کا زائیدہ ہوتا ہے۔ا±نھوں نے اردو شعری اصناف مثلاً غزل، قصیدہ، مرثیہ وغیرہ کی شعریات پر بات کرتے ہوئے شعریات کے ا±ن نکات کو واضح کر دیا ہے جن سے شعر اور غیر شعر میں خط ِ امتیاز کھینچ کر شعریت کی ممکنہ ابعادی اور امکانی جہات تک رسائی پانے کی کوشش کی جاتی ہے۔تیسرے خطبے بہ عنوان”معاصر تنقید: حدود اور امکانات“میں ا±نھوں نے پس منظر کے طور افلاطون اور ارسطو کے تنقیدی نظریات کا اعادہ کرتے ہوئے معاصر تنقید کے طریق کار اور دائرہ عمل پر روشنی ڈالی۔ ا±نھوں نے معاصر تنقیدی رویوں کے گہرے لسانیاتی شعور کا تذکرہ کرتے ہوئے ادب کے تعین قدر میں متن اور قاری کے ساتھ ساتھ زبان کی ساخت اور اس کے تفاعل کی اہمیت کو بھی ا±جاگر کیا ہے۔ ا±نھوں نے ہیئتی تنقید، نئی تنقید، ساختیات، پس ساختیات، رد تشکیل اور تانیثی تنقید جیسے معاصر تنقیدی نظریات کے تصورِ نقد اور امتیازی پہلوو¿ں پر روشنی ڈالتے ہوئے معاصر تنقید کے معنی خیزی کے عمل میں کثرت ِ معنی اور معنی کے غیاب اور التوا کے تصور سے معنی کی نئی جہات اور نئی تعبیرات کے ضمن میں ادبی متن کے نادیدہ امکانات کو روشن کرنے کے پیش نظر ادبی تنقید کے غیر روایتی طریق کارکی ماہیئت کو ا±جاگر کیا ہے۔بہر صورت شعبہ اردو، کشمیر یونی ورسٹی توسیعی خطبات کے اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے اردو زبان و ادب کے معروف ادیبوں اور ناقدین ادب سے مختلف موضوعات پر توسیعی خطبات کا انعقاد عمل میں لائے گا۔