سری نگر16/دسمبر(پریس ریلیز)عصر حاضر کے ادبی منطر نامے پر مابعد جدید رجحان کا بول بالا ہے۔ اس سے انکار ممکن نہیں۔ آنےوالی صدیوں میں بھی مابعد جدید رجحان اور مابعد جدیدتنقیدی رویے کا ہی سکہ چلے گا کیونکہ یہ رجحان کسی بھی نظریے کو حتمی نہیں سمجھتا۔یہ تکثیریت اور آزادی اظہار پر اصرار اور معنی پر بٹھا ئے گئے پہرے کو رد کرتا ہے۔ان خیالات کا اظہار کشمیریونیورسٹی کے تاریخی شعبہ اردو کے زیر اہتمام توسیعی خطبہ بعنوان ” مابعدجدید تنقید : اظہار وامکان ” پیش کرتے ہوئے تاجک نیشنل یونیورسٹی ، دوشنبہ، تاجکستان میں وزیٹنگ پروفیسر ڈاکٹر مشتاق صدف نے کیا۔ انہوں نے قاری اساس تنقید، بین المتونیت،تاریخیت، نئی تاریخیت، ساختیات، پس ساختیات، تانیثی تنقید،اکتشافی تنقید و امتزاجی تنقید پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ نیزجدیدیت اور ترقی پسند نظریات کی خوبیوں اور خاتمے کے اسباب پر اظہار خیال کیا۔ مابعد جدید رجحان اور اس کے اطلاقی اور اظہاری رویوں پر سیر حاصل گفتگو کی۔انہوں نے کہا کہ مابعد جدیدیت نئے ذہنی رویے ، نئےثقافتی رویےاور نئی صورت حال سے وجود میں آئی ہے۔تخلیق کی آزادی اور ثقافتی تشخص پر اصرار اس کی بنیادی شناخت ہے۔یہ رجحان ادبی متن کو خودمختار تسلیم نہیں کرتا اور منشا? مصنف کوبھی رد کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مابعد تنقید کا بنیادی حوالہ قرات اور قاری کا ردعمل ہوتا ہے اور قاری پر سوال اٹھانے والوں کو ما بعد جدید تنقید جواب دیتی ہے۔پروگرام کی ابتدا میں صدر شعبہ اردو پروفیسر ڈاکٹر عارفہ بشری نے مہمان مقرر ڈاکٹر مشتاق صدف کا بڑے سلیقے سے ایک بھرپور تعارف پیش کیا۔ جبکہ ڈاکٹر مشتاق حیدر نےبحسن وجوبی نظامت کے فرائض انجام دیے۔ خطبہ کے بعد سوال وجواب کا سلسلہ بھی چلا۔ آخرمیں ڈاکٹرذاکر نے بڑی خوبصورتی سے شکریے کی رسم ادا کی۔ اس انتہائی کامیاب اور بے حد معلوماتی توسیعی خطبے میں طلبا وطالبات کی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ اردو کی متعدد سرکردہ ادبی شخصییات مثلا ڈاکٹر ریاض توحیدی، داکٹرآصف ملک وغیرہ نے بھی اس میں شرکت کی۔نیزکئی دیگر اسکالرز نے اس کامیاب خطبے پر اظہار خیال بھی کیا۔