سرینگر11 جولائی : حالیہ دنوں مشہورمواصلاتی کمپنیوں جیوں اورآئر ٹیل کی جانب سے اپنے پلانز میں زبردست اضافے کے ساتھ ہی وادی کشمیر کے اکثر صارفین نے شدید غم و غصے اور برہمی کا اظہار کیا۔صارفین نے اس دوران یا تو اپنے سم کارڑ کو پورٹ کیا یا نئے بی ایس این ایل سم کارڑ نکالنے شروع کئے ۔کشمیرنیوز سروس کے سینئر نامہ نگار نے اس حوالے سے جمعرات ک شہر سرینگر میں کئی صارفین کے ساتھ بات چیت کی وہی دوسری جانب انہوں نے شہر میں واقع بی ایس این دفتر کا دورہ کیا۔ ریاض احمد نامی ایک صارف نے بتایا کہ دونوں کمپنیوں کے لئے وادی کشمیر سونے کی کان ثابت ہوئی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ وادی کشمیر کے ہر گھر میں ہر فرد کے پاس ایک ایک سم کارڑ ہے جو ماہانہ اپنا فیس ادا کرتاتھا جبکہ زیادہ بوجھ کی وجہ سے اب مجبوارً ایک سم گھر میں رہے گی۔کشمیر یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک طالبہ نے بتایا کہ بے روز گاری عروج پر ہے متعدد نوجوان ایسے ہیں کہ جو دن کے10روپے بھی نہیں کماتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کم سے کم پلان 300کا ہے جس کو حاصل کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے ۔ اس دوران وادی کشمیر کے شمال وجنوب میں صارفین نے اس مہنگے پلان کے خلاف شدید برہمی کا اظہار کیا ۔جبکہ شہر دیہات میں اب آئر ٹل کی طرف بی این ایس کے سم کارڑس سڑکوں پر لوگ حاصل کرنے لگے ہیں۔تاکہ مجبوری کی حالت میں لوگ سستے داموں میں کم سے کم موبائل فون کا ستعمال کر سکتے ہے۔تاہم اکثر صارفین کا ماننا ہے کہ بی ایس این ایل کو محکمے نے ہی سب سے پیچھے کیا ہے جہاں جہاں ٹاور ہے وہ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں ۔ انہوںنے بی ایس این ایل کے اعلیٰ حکام سے موجود سنگل ٹاوروں کو بہتر انداز میں چلانے کے علاوہ نئے ٹاور شہر دیہات میں چالوں کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ نمائندے نے سرینگر میں موجود بی ایس این ایل کے دفتر کا بھی دورہ کیاجہاں انہیں معلوم ہوا ہے کہ ج سم کارڑ 30منٹ میں چالو ہوتا تھا اس میں اب گھنٹے درکار ہیں کیوں کہ یہاں کام بڑ گیا ہے ۔انہوں نے بتایا یہاں متعدد مقامی و غیر مقامی لوگ جن میں وہ افراد بھی شامل تھے جو کشمیر میں مختلف کام کے سلسلے میں موجود ہیں سم کارڑس کو بدلنے کے لئے پیش پیش تھے ۔