اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں 100 سے زائد ماورائے عدالت قتل کے ’قابل اعتبار الزامات‘ موجود ہیں اور ان میں سے اکثر قتل طالبان کی جانب سے کیے گئے ہیں۔غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق اقوام متحدہ کے کمیشن برائے انسانی حقوق کی نائب سربراہ ندیٰ الناشف نے کہا ہے کہ 15 اگست کو طالبان کے قبضے کے بعد طالبان کی جانب سے عام معافی کے اعلان کے باوجود لوگوں کو قتل کیے جانا پریشان کن ہے۔انہوں نے انسانی حقوق کونسل کو بتایا کہ ’اگست سے نومبر کے دوران ہمیں سابق افغان سیکیورٹی فورسز اور سابق حکومت کے ساتھ کام کرنے والے 100 سے زائد افراد کے قتل کے قابل اعتبار الزامات موصول ہوئے ہیں‘۔انہوں نے مزید بتایا کہ ’ان میں سے تقریباً 72 ہلاکتوں میں طالبان کا نام لیا جارہا ہے، کئی واقعات میں تو لاشوں کو سرعام دکھایا بھی گیا جس سے آبادی کا بڑا حصہ خوف میں مبتلا ہے‘۔طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبد القہار بلخی نے کہا کہ حکومت عام معافی پر اب بھی قائم ہے۔انہوں نے سابق انتظامیہ کے اہلکاروں کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدامات کی بھی نفی کی اور کہا کہ ’جو بھی عام معافی کی خلاف ورزی کرے گا اسے قرار واقعی سزا دی جائے گی‘۔ندیٰ الناشف نے اقوام متحدہ کو انسانی حقوق کے سربراہ مشل بیچلیٹ کی جانب سے کونسل کو اس حوالے سے بتاتے ہوئے کہا کہ ’ان واقعات کی گہرائی میں جانچ پڑتال کی جائے گی اور غیر مصدقہ افواہوں کو اہمیت نہیں دی جائے گی‘۔انہوں نے کہا کہ طالبان کے دشمن گروہ داعش کے اراکین بھی مارے گئے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ ’صرف صوبے ننگرہار میں داعش کے 50 مشتبہ اراکین کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات سامنے آئے ہیں‘۔ان کے مطابق اس حوالے سے ’سفاکانہ طریقوں بشمول پھانسی دینے، سر قلم کرنے اور لاشوں کی عوامی نمائش‘ جیسے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔ان کا یہ بیان امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے طالبان کی مذمت کے بعد سامنے آیا۔ان ممالک نے اس ماہ کے اوائل میں انسانی حقوق واچ کی ایک رپورٹ پر طالبان کی مذمت کی تھی، رپورٹ میں 47 ماورائے عدالت قتل کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔