عراق میں ججوں کو دہشت گرد گروہوں اور ملیشیاؤں کی جانب سے موت کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ انہیں جان سیمارنے کا عمل جاری ہے۔ سنہ2003ء میں عراق میں تبدیلی کے بعد سے اب تک درجنوں ججوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا چکا ہے۔رواں پانچ فروری کو جنوبی عراق کی میسان گورنری میں جج احمد فیصل الساعدی کے قتل کے بعد عراق میں ججوں اور تفتیش کاروں کو درپیش خطرات کا معاملہ ایک بار پھر سامنے آیا ہے۔جج احمد فیصل الساعدی کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ فائق زیدان نے انٹیلی جنس سروسز کو اپنا کام تیز کرنے اور غفلت برتنے والوں کا محاسبہ کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے سیکیورٹی لیڈروں اور میسان گورنری میں سیکیورٹی کے تحفظ کے ذمہ داروں پر قانون کے دوبارہ نفاذ کی ضرورت پر زور دیا۔بدعنوانی، دہشت گردی، منشیات اور قانون نافذ کرنے والے ججوں میں سب سے نمایاں جج ہیں جنہیں دہشت گرد گروپوں اور ملیشیاؤں کے خطرات کا سامنا ہے۔ العربیہ ڈاٹ نیٹ کو حاصل معلومات کے مطابق عراق میں 2003 سے اب تک 74 جج مارے جا چکے ہیں۔قتل ہونے والے ججوں کی تعداد عدالتی ادارے کو نشانہ بنانے کی منظم اور منصوبہ بند حکمت عملی کی نشاندہی کرتی ہے۔بہت سے جج قاتلانہ حملوں میں بچ گئے ورنہ ہلاکتوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی۔سیکیورٹی امور کے ماہر فاضل ابوغریف نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ "سپریم جوڈیشل کونسل عراقی ریاست کے تمام پہلوؤں، دہشت گردی، بدعنوانی اور منشیات کے خلاف جنگ، یہاں تک کہ منظم جرائم سے متعلق جرائم کی تحقیقات میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔”انہوں نے مزید کہا کہ جوڈیشل کونسل نے درجنوں، شاید سینکڑوں ایسی شخصیات کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جن کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کی توقع نہیں تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ عدلیہ کو بڑی آزادی حاصل ہے اور وہ ایک مضبوط ادارہ ہے