متحدہ امریکہ کے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے کہا کہ چین کے ساتھ تنازعہ "ناگزیر نہیں ہے” لیکن امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔بلنکن نے کواڈ الائنس کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات سے پہلے ایک بیان دیا، جو آسٹریلیا، بھارت، جاپان اور امریکہ پر مشتمل ہے۔انہوں نے ایک صحافی کے سوال کہ کیا انڈو پیسیفک میں چین کے ساتھ تصادم ناگزیر ہے؟ کے جواب میں بلنکن نے بتایا کہ "کچھ بھی ناگزیر نہیں ہے۔” بلنکن نے جواب دیا، تاہم، امریکہ کو قواعد پر مبنی نظام کے لیے اپنے اتحادیوں کے ساتھ ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے۔بلنکن نے کہا، "میرے خیال میں ہم ان خدشات کا اشتراک کرتے ہیں کہ چین حالیہ برسوں میں اندرونی طور پر اور خطے میں زیادہ جارحانہ انداز میں کام کر رہا ہے "مستقبل میں کیا ہو سکتا ہے یہ اس اتحاد کے مثبت وژن” اور "قواعد پر مبنی نظام کا دفاع کرنے کے وعدے کے ساتھ جوڑا گیا تھا جس کی تعمیر میں انہوں نے بہت زیادہ وقت اور محنت صرف کی ہے۔”دوسری جانب چینی وزارت خارجہ نے امریکہ پر الزام لگایا کہ وہ کواڈ کا استعمال کر کے دوسرے ممالک کو امریکی جمہوریت کے معیارات کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔ آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے بات چیت کا آغاز چین کے ساتھ اپنے کشیدہ تعلقات کی جانب مبہم اشارہ دے کر چاروں ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ میں اس گروپ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے دورے پر موجود عہدیداروں کو بتایا کہ ہم ایک انتہائی نازک، بے ربط اور مسابقت سے بھرپور دنیا میں رہتے ہیں، ہم ان لوگوں کے خلاف کھڑے ہوں گے جو ہم پر دباو ڈالنا چاہتے ہیں۔اسکاٹ موریسن نے چین کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ ایک بہت خوش آئند بات ہے کہ آسٹریلیا پر کیے جانے والے جبر اور دباؤ کا کواڈ کے دیگر تینوں ساتھی اراکین کو اندازہ ہے۔امریکی سیکریٹری خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ اگرچہ اس وقت امریکا کی نظر روس کی جانب سے یوکرین کو درپیش خطرے پر ہے، لیکن طویل المدتی مسئلہ چین کی ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔اس موقع پر انہوں نے ‘دی آسٹریلین’ اخبار کو بتایا کہ میرے ذہن میں اس حوالے سے کوئی شک نہیں ہے کہ چین کے عزائم وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف خطے میں بلکہ پوری دنیا میں ایک سرکردہ فوجی، اقتصادی، سفارتی اور سیاسی طاقت بننا ہے۔کواڈ کو پہلی بار 2007 میں لانچ کیا گیا تھا لیکن اس نے ایک دہائی بعد اس وقت زور پکڑا جب چین نے جنوبی بحیرہ چین میں اپنی فوجی طاقت کو جارحانہ انداز میں پیش کیا اور اس کے بعد بھارت کے ساتھ پرتشدد سرحدی جھڑپوں میں بھی ملوث رہا۔اس سے قبل چاروں ممالک نے 2020 میں خلیج بنگال میں مشترکہ بحری مشقیں کیں، لیکن میلبورن میں ہونے والی حالیہ ملاقاتوں کا مقصد دیگر شعبوں میں بھی تعاون کو گہرا کرنا ہے۔ان میں کورونا وبا سے لڑنا اور عالمی سطح پر ‘فائیو جی’ ٹیکنالوجی کے اجرا سمیت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اہم مسائل پر ہم آہنگی پیدا کرنا ہے۔انٹونی بلنکن نے کہا کہ وہ مخلتف چیلنجز کے حوالے سے ایک متفقہ نقطہ نظر تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں، جس میں ٹیکنالوجی کے معیارات پر اتفاق، صحت کے مسائل اور موسمیاتی تبدیلی پر تعاون کرنا ہے۔کواڈ گروپ کو چین کے معاملے پر اکٹھا ہونے کے تاثر سے زیادہ اس اتحاد کو معنی دینے میں کورونا وبا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے