معراج زرگر۔
1540 ءمیں پہلی بار شیرشاہ سوری نے زمینوں کے اعداد و شمار کے متعلق ایک سسٹم متعارف کرایا، جس سے کہ زمین سے متعلق ریکارڈ کی دیکھ بھال ہوسکے۔ یہ اس زمانے میں ایک موثر اور کارگر نظام تھا۔شیر شاہ سوری کے زمینی ریکارڈ کے نظام کو بعد ازاں انگریزوں نے 1848ءمیں ضروری اصلاحات اور ترامیم کے بعد متعارف کرایا۔ اور یہی وہ نظام ہے جو آج بھی بر صغیر میں قائم ہے۔ اور ریاست جموں و کشمیر میں بھی انگریزوں کا ہی قائم کردہ نظام پٹوار رائج ہے۔ زمانے کی ترقی اور آبادی میں بے تحاشا اضافے کے ساتھ زمینی حالات یکسر بدل گئے ہیں اور جہاں سینکڑوں کھاتہ دار وں کا اندراج ریکارڈ مال میں ہوتا تھا، وہاں لاکھوں اور کروڑوں کھاتہ داروں کے اعداد و شمار کا ریکارڈ اندراج کرنا پڑ رہا ہے۔ جسکی وجہ سے ریکارڈ مال میں روز بہ روز پیچیدگیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ اور اس ریکارڈ کو محفوظ رکھنے والا بنیادی ،معمولی ،مگر اہم کارکن یعنیٰ پٹواری بھی ان پیچیدگیوں کی زد میں آکر اپنا معیار اورپوزیشن کھو رہا ہے۔
انگریز سرکار کے تقریبا دو سو سال پہلے متعارف کرائے گئے زمین کی ملکیت کے نظام کے ساتھ ساتھ قانون سازی اور انتظامی امور کے ڈھانچے کے لئے ایک کمشنری نظام بھی لاگو کیا گیا۔ جو آج بھی نافذ العمل ہے۔اس نظام کے تحت جہاں انگریز حکومت کو ذیادہ سے ذیادہ معیشتی اور معاشی مراعات اور فوائد حاصل ہوئے وہیں عوام کو بھی ان اصلاحات کے ذریعے نہ صرف ملکیتی حقوق مل گئے بلکہ اس نظام کے تحت زمینی ملکیت کے اعداد و شمار، مالکان کے ذاتی کوائف، فصلات کی تفصیل، ذرایع آبپاش، لگان، مطالبہ اور مالیہ کے متعلق اہم اور قیمتی تفصیلات میسر ہوئیں۔ کھیتوں کی پیمائش اور رقبہ کی تفصیلات کا ایک اہم ریکارڈ بھی میسر آگیا۔ مگر زندگی کے ہر ایک شعبے میں جدید تقاضوں اور جدید ٹیکنالوجی کے اثر انداز ہونے کے مثبت پہلو کو سمجھتے ہوئے اور محسوس کرتے ہوئے دنیا بھر میں پرانے اور فرسودہ نظاموں کو یا تو بدل دیا گیا ہے یا ان میں جدت لانے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔
عالمی بنک نے سال 2006 میں ایک رپورٹ میں بر صغیر ہند و پاک میں رائج پٹوار نظام کو نہایت فرسودہ، ناقابل رسائی، کمزور منتشر اورغیر موثر قرار دیا ہے۔ 2013 ءمیں کرائی گئی ایک بین الاقوامی تحقیق کے مطابق اس نظام سے وابسطہ90% لوگ اس میں اصلاح چاہتے ہیں۔دنیا بھر میں کئی صدیوں سے رائج ضابطوں اور اصولوں کے مطابق زمین کی ملکیت کا انتظام اور انصرام اور اسکے اعداد و شمار کی سروے اور رجسٹر بندی ، اور ایک خاص تکنیک کے ذریعے بنائے گئے زمینی نقشوں پر مشتمل ایک انتہائی پرانے سسٹم میں اصلاحات نا گزیر ہیں۔
محکمہ مال میں سب سے بڑی اصلاحات میں زمینی ریکارڈ یا پٹوار ریکارڈ کی Computerization یاDigitization کا عمل ہے۔ عالمی سطح پر دنیا کی 200 معیشتوں میں تقریباََ 63% معیشتوں کے لینڈ ریکارڈز کمپیوٹرائز ہو چکے ہیں۔ اور بین الاقوامی سطح پر 60.50% اراضی سے متعلق دستاویزات کمپیوٹرائزڈ ہیں۔ صدیوں پر محیط لینڈ ریکارڈز کے نظام کو کاغذ کے صفحات پر لکھا جا رہا تھا اور پھر رجسٹر بند کیا جاتا تھا۔ یہ نظام اندراج اگرچہ موثر تھا لیکن ترقی اور زمینی حالات کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال کا تقاضا ہے کہ اب اس سسٹم کو خیر باد کہہ کے ایک نیا اور موثر سسٹم معرض وجود میں لایا جا چکا ہے۔ ایک طویل عرصے سے جاری پٹوار سسٹم یا لینڈ سسٹم اپنی افادیت ،اثر اور اعتبار کھو رہا تھا۔ جس کی وجہ سے استحصال اور کورپشن کے مواقع فراہم ہو رہے تھے۔ بدیں وجہ ایک ایسے فعال، موثر، جدید، محفوظ، قابل رسائی اور اور قابل اعتبار سسٹم کی ضرورت تھی، جو وقت کے تقاضوں کو پورا بھی کرے اور کئی ایک مشکلوں کا سامان بھی مہیاءکرے۔
جموں کشمیر میں جدید بندوبست آپریشن جو کہETS کے ذریعے سے کیا جاتا تھا۔ 2014 ءمیں نئے انتظامی یونٹوں کے قیام کے بعد اسے بند کیا گیا ۔ پچھلے آٹھ سال میں ریاست کا تقریبا 80 فیصد لینڈ ریکارڈ نئے بندوبست کے دائرے میں لایا ہوچکا ہوتا۔ National Land Records Modernazation Program (NLRMP)کے تحت ایک سرکاری فیصلے میں ایک بھارتی نجی کمپنی RAMTECHکو لینڈ ریکارڈ س ڈیجیٹائیز کرنے کا کنٹریکٹ دیا گیا۔ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں لینڈ ریکارڈس کی جدید کاری کا عمل مکمل ہو چکا ہے۔
رامٹیک کمپنی نے پرانے ریکارڑ کی لاکھوں کاپیاں اسکین کیں اور اس کے علاوہ جموں اور سری نگر اضلاع کا کم و بیش ریکارڈ بھی ڈیجیٹائز کیا۔ رواں سال کے ہی وسط میں ایک اور اہم سرکاری حکم نامے کے مطابق لینڈ ریکارڈس ڈیجی ٹائز کرنے کا کام محکمہ مال کو سونپا گیا اور بنیادی سطح پر پٹواری کے گلے میں اس اہم اور سنجیدہ کام کی رسی بغیر کسی ٹریننگ اور ضروری لوازمات اور سامان کے ڈالی گئی۔ پٹوار طبقے کے فقط تین ہزار کے قریب جتھے کو پورے کشمیر اور جموں صوبہ جات میں ہنگامی طور ریکارڈ کی ڈیچی ٹائزیشن کا انتہائی مشکل کام سونپا گیا۔ سرکاری مشینری نے پٹواریوں کے ساتھ ساتھ اساتذہ, کمپیوٹر آپریٹرز اور کچھ دوسرے ملازمین کو بھی اس کام پر مامور کیا اور آج کے روز تقریباََ سارا ریکارڈ ڈیچی ٹائز ہو چکا ہے۔ لیکن اس پر بات ختم نہیں ہوتی۔
آراضی کا ریکارڈ اس زمین پر بود و باش کی بنیاد ہے۔ اور کسی بھی معمولی سے معمولی اور اعلی سے اعلی انسان کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے زمین کے ٹکڑے کا ریکارڈ درست ہونا اولین ترجیح اور ضرورت ہے۔ ہنگامی اور کچھ بنیادی لوازمات کی غیر موجودگی میں زمینی ریکارڈ کی ڈیجی ٹائزیشن جہاں ایک شاندار اقدام ہے وہیں اراضی کے متعلق پہلے سے ہی موجود ریکارڈ موقع کی مناسبت اور کچھ تکنیکی امورات کی وجہ سے ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ عام زمینداران کو یہ تاثر مل چکا ہے کہ اراضی کی جدید کاری سے اس کی زمین محفوظ اور اس کے زمین کے ریکارڈ تک رسائی آسان ہو چکی ہے۔ مگر ایسا بالکل بھی نہیں۔ محکمہ مال کے ایک اہم اور بنیادی کارکن پٹواری کے کام اور اس کی پوزیشن کو انتہائی غیر زمہ داری اور ناشائستہ طور بگاڈنے کے بعد بھی جس تن دہی اور جانفشانی سے اس نے موجود اور میسر ریکارڈ کی تجدید کاری کی, اس میں تکنیکی طور اگر خامیوں کو دور نہ کیا گیا تو آراضی کی جدید کاری زمینداران کے لئے درد سر بن سکتی ہے۔ اور انہیں زمین کے صحیح کوائف میسر نہیں ہونگے۔ آئیے چند تکنیکی خامیوں کا احاطہ کرنےکی کوشش کریں تاکہ زمینداران با خبر ہو سکیں اور سرکاری سطح پر زمہ داران اس بات کو صحیح انداز اور مثبت طریقے سے لیکر محکمہ مال کے ریکارڈ کو مزید قابل رسائی, قابل بھروسہ اور درست بنانے کے اقدامات کریں۔
1۔ میسر شدہ اور موجود ریکارڈ میں قانون زرعی اصلاحات کی زد میں آئی ہوئی اراضی کا ٹھیک ٹھاک ریکارڈ مذکورہ قانون کے کالعدم اور بند ہونے کے با وجود بھی موجود ہے۔ زرعی اصلاحات کی کئی دفعات خاص کر دفعہ 4 اور دفعہ 12 کے سینکڑوں اندراجات ہنوذ ریکارڈ میں موجود ہیں اور موقع پر یہی اراضی اسامی در اسامی فروخت کی جاچکی ہے اور بروئے ریکارڈ یا تو سرکار کے نام ہے یا سابقہ مالک کے نام۔
2۔ خالصہ سرکار/ تابع مرضی سرکار اراضی کے اندراجات ختم کرنے کے احکامات صادر ہو چکے ہیں۔ اور معاملہ عدالت عالیہ میں زیر سماعت ہے۔ ہزاروں لاکھوں زمینداران نے مذکورہ اراضی کی خرید و فروخت کی ہے اور اراضی زیر بحث پر رہائشی مکانات, بازار, شاپنگ کمپلکس, باغات اور دوسری تعمیرات کھڑی ہیں۔ اور اکثر ان پڑھ اور سادہ عوام اس اراضی پر اپنے حقوق اور استحقاق قائم کئے ہوئے سمجھتی ہے۔
3۔ ہزاروں لاکھوں کنال اراضی کا ریکارڈ سابقہ مالکان کے نام اندراج ہے۔ اور صحت اندراج گرداوری اور صحت کاشت جیسے انتقالات کے ذریعے سے اراضی کے لاکھوں کنال موجودہ زمین قابضان کے نام ہے, مگر بروئے ریکارڑ وہ مالکان نہیں ہیں اور کاشکاران ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی لاکھوں کنال اراضی کی خرید و فروخت در خرید و فروخت کے نتیجے میں اراضی کا ریکارڑ مکمل طور غلط ہے اور بروئے موقع اور قبضہ متضاد ہے۔
4۔ ریکارڈِ مال میں ایسے بھی سینکڑوں اندراجات موجود ہیں جہاں پر مزارعان غیر موروث, مزارعان موروث, مزارعان محفوظ, مزارعان غیر محفوظ, مرتہنان وغیرہ جیسے الفاظ ہمیں ملتے ہیں اور اس قسم کی اراضی بھی بغیر تکمیل کاغذات نسل در نسل فروخت کی جاچکی ہے۔ اور موجودہ مالک کے پاس کوئی حقوق اور استحقاق نہیں ہے۔
5۔ زرعی اصلاحات کے خاتمے اور کچھ اور دوسری اراضی کی منتقلی کے بعد سینکڑوں خانہ ہا ملکیت میں ایسے مالکان کے نام اراضی بروئے ریکارڈ موجود ہے جن کی موقع پر کوئی زمین نہیں۔ اور سینکڑوں ایسے مالکان ہیں جن کی غلطی کی وجہ سے زائد از حصص اراضی کے حقوق اور استحقاق منتقل کئے جاچکے ہیں, مگر موقعہ پر ان کی ریکارڈ سے زیادہ اراضی موجود ہے۔
6۔ چونکہ اکثر زمینداران اور سرکار کو معلوم ہے کہ کئی مواضعات کے نقشہ جات دریدہ اور ناقابل رفتار ہو چکے ہیں اور ایسے مواضعات میں تکمیل کاغذات بروئے منتقلی اراضی نقشہ جات میسر نہ ہونے کی وجہ سے موقعہ پر صحیح نمبرات خسرہ کا تعین نہ کرنے کی وجہ سے غلط نمبرات اندراج کئے گئے جس کی وجہ سے زمینداران کو مکمل طور غلط ریکارڈ میسر ہوگا۔
7۔ ڈیجی ٹائزیشن کو طوفانی رفتار سے جلد از جلد مکمل کرنے کے نتیجے میں سینکڑوں انتقالات کا عمل درآمد جدید ریکارڈ میں کرنے سے رہ گیا۔ اسی طرح ریکارڈ کی اسکیننگ کے بعد کئے گئے انتقالات کا عمل در آمد بھی ڈیجی ٹائزیشن کے دوران نہیں کیا گیا۔
متذاکرلبالا امورات کو نتیجے میں اس وقت جو ریکارڈ, چاہے وہ سابقہ ہے یا ڈیجی ٹائزڈ ہے, وہ بحر صورت ایک ٹھیک ٹھاک تناسب میں صحیح نہیں ہے۔ اور "اپنی زمین اپنی نگرانی” کے پورٹل پر ایک زمیندار کو مکمل کوائف میسر نہیں ہونگے۔ جس کی وجہ سے پہلے سے ہی بدنام پٹواری کو نئے سرے سے دشنام کا سامنا ہوگا۔
اس صورت حال کے نتیجے میں جو بھی پاس بک زمینداران کو اجراء کئے جا رہے ہیں۔ ان میں ایک اچھی خاصی زمینداران کی تعداد کو مکمل اور درست اراضی کے کوائف اور ریکارڈ درج نہیں ہونگے۔ نیز سرکار کی جانب سے پی۔ ایم کسان اور دوسری مراعات فراہم کرتے وقت ایسےتمام زمین مالکان کو کچھ نہیں ملے گا جن کے پاس اراضی بروئے موقعہ و قبضہ تو ہے مگر متذاکرالبالا تکنیکی خامیوں کی وجہ سے وہ ریکارڈ میں درج نہیں ہیں۔
اسی طرح ایسے زمین قابضان جن کا ریکارڈ متذاکرالبالا معاملات کی وجہ سے ان کے نام اندراج نہیں ہے, وہ مختلف قسم کے بنک قرضہ جات بغرض تعمیر مکانات اور بچوں کی تعلیم وغیرہ اور دیگر سرکاری اسکیموں کا بھی فائدہ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ اسی طرح مختلف عدالتوں اور دیگر دفاتر میں ریکارڈ اور موقعہ یا قبضہ کے میلان نہ ہونے کی وجہ سے غیر ضروری طوالت, پریشانی اور رشوت کے مواقع فراہم ہوتے ہیں۔
محکمہ مال میں رائج پرانے طرز کا جو حلقہ یا سرکل نظام ہے، وہ بھی زمانے کی ترقی کے ساتھ ساتھ فرسودہ اور غیر اہم ہوتا جا رہا ہے۔ انسانی آبادی کے بڑھنے اور سرکاری کاموں میں بے تحاشا اضافے کے ساتھ مشتاق گنائی کمیشن ، بلوریا کمیشن اور دیگر کمیشنوں کی سفارشات پر نئے انتظامی یونٹوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ نئے ضلعوں کا قیام، نئی تحصیلوں کا قیام، چند دیہات پر مشتمل غیر ضروری نیابتوں کا قیام جہاں عمل میں لایا گیا، وہیں پٹوار حلقہ جات اور گرداور سرکلز کو جوں کا توں رکھا گیا۔ جبکہ نچلی اور بنیادی سطح پر ہی تبدیلی رونما ہونی چاہیے تھی۔ ایک چھوٹے سے گاﺅں میں دو دو تین آنگن واڈی سینٹرز ، کئی کئی گورنمنٹ اسکول، اور دیگر دفاتر ہیں، لیکن وہیں پانچ پانچ چھ چھ دیہات پر مشتمل ایک حلقے کی ذمہ داری ایک پٹواری کو سونپی گئی ہے۔ اور تقریبا ناممکن ہے کہ روز بہ روز بڑھتے ہوئے سرکاری کام کے دباﺅ اور وقفے وقفے سے ریکارڈ کی تحریر کے ساتھ انصاف ہوسکے۔اسطور نئی حلقہ بندیوں اور سرکل بندیوں کی اشد ضرورت ہے۔
ایسے میں سرکار کو چاہیے کہ زمینی ریکارڈ کے تحفظ اور اس کو ہر ایک زمیندار کے لئے میسر رکھنے کے شاندار اور ماڈرن پروگرام میں تکنیکی خامیوں کو دور کرنے کے لئے اور محکمہ کے اہم کارکن کے مسائل کی طرف توجہ دیکر ایک مثالی سنگ میل کو حاصل کرنے کے لئے مزید اقدامات کرنے چاہیں۔ ایسے حالات میں ایک جدید بندوبست کی ضرورت ہے جس کے لئے سرکار کے پاس لائحہ عمل پہلے سے ہی موجود ہے۔ مگر اس کام کے لئے وقت, انسانی مشینری, جدید آلات, مکمل ٹریننگ کی ضرورت ہوگی۔ اور عین واجب ہے کہ پٹواریوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کی بھرتی عمل میں لائی جائے۔ کیونکہ ایک ہمہ وقت اور جدید بندوبست کے لئے تین ہزار پٹواریوں کا جتھہ کسی بھی طور نامکتفی ہے۔