معراج زرگر۔
یہ مئی 2013 سن کی بات ہے۔ میں اپنے بچے کی ولادت کے سلسلے میں کشمیر کے سب سے بڑے زنانہ ٹرشری کیئر ہسپتال لل دید کے بچوں کے انتہائی نگہداشت والے وارڈ میں تھا۔ جہاں ہم اٹھارہ دن رہے۔ اور اٹھارہ دن بعد وہ بچہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔ وہ جب پیدا ہوا تو ڈاؤنز سنڈروم کے نتیجے میں کثیر اعضاء کی ناکامی کی وجہ سے آئی۔ سی۔ یو۔ میں رہا اور زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اصل کہانی یہ نہیں۔
چونکہ میں اور میرے کزن بھائی باری باری چار چار یا چھ چھ گھنٹے کا تھکا دینے والا وقت آئی۔سی۔یو۔ میں گذارتے تھے, تو میں رات کے وقت اپنی باری ختم کرتے وقت ہسپتال کی جدید عمارت کے تیسرے فلور پر ایک قدرے صاف اور شفاف کونے میں کمبل یا کوئی شیٹ ڈال کے آرام کرلیتا تھا۔ وہاں ایک اور اچھی بات یہ تھی کہ کونے میں ایک سوئچ بورڈ لگا تھا, جہاں فون چارج ہو تا تھا اور کوفت نہیں ہوتی تھی۔ ہسپتال کا وہ حصہ راہداری سے ہی متصل تھا مگر وہ کونہ قدرے پرے تھا۔ اس حصے کے ٹھیک سامنے ٹیسٹ لیبارٹریز کا سلسلہ تھا۔
میں ایک دن معمول کی طرح اپنے آرام کی باری کے وقت مقررہ جگہ پر بیٹھا تھا کہ رات کے تقریباً بارہ بجے میں نے ایک گوجر بہن کو پریشانی کے عالم میں لیبارٹری کے سامنے کئی بار آتے جاتے گزرتے دیکھا۔ جب مجھے لگا کہ اس بہن کو کوئی پریشانی ہے تو میں کھڑا ہوگیا اور اس سے پوچھا کہ اس کو کیا کام ہے۔ چونکہ اس کے ہاتھ میں خون کے سیمپل اور کاغذات تھے تو وہ بولی کہ مجھے یہ ٹیسٹ ادھر ڈالنے ہیں اور وہاں لیبارٹری میں ڈیوٹی پر بندہ سو رہا ہے اور میں نے اس کو آواز بھی دی مگر وہ نہیں سن رہا۔
میں اس عورت کو ساتھ لیکر جب کاؤنٹر پر پہنچا تو قدرے زور سے آواز دی اور ڈیوٹی پر شخص ہڑبڑاکر اٹھا اور تلخ لہجے میں گھورتے ہوئے پوچھا کہ کیا ہے ؟ میں نے بھی تھوڑا تیز لہجے میں اس سے کہا کہ یہ بے چاری عورت دس منٹ سے آپ کو آوازیں دے رہی ہے اور آپ ڈیوٹی کے وقت سورہے ہو۔ اس دوران کچھ تیز کلامی کی وجہ سے کمرے میں ایک کونے میں بیڈ پر دوسرا سو رہا شخص اٹھ کھڑا ہوا اور معاملے کو سمجھ کر کاؤنٹر پر بیٹھے شخص کو چپ کرایا اور ہم سے بھی معذرت کی۔ مختصراً اس گوجر بہن کو رات کے ڈھائی بجے ٹیسٹ نتائج لینے کے لئے کہا گیا۔
جب ہم وہاں کاؤنٹر سے پلٹے تو میں نے اس گوجر بہن سے کہا کہ کوئی مرد ساتھ نہیں۔ تو اس نے ایک آہ بھری اور کہا کہ مرد ہے مگر وہ بازار ایک اور ٹیسٹ کرانے گیا اور بیمار عورت, جو اس کی بہن تھی, اس کے پاس وہ ہے۔ اس نے کہا کہ وہ بانڈی پورہ کے کسی دور افتادہ علاقے سے ہیں اور زچگی کے سلسلے میں یہاں ہیں۔ میں نے پھر سے کہا کہ کسی دوسرے مرد کو ساتھ رکھنا تھا۔ تو اس نے پھر سے آہ بھری اور ایک جملہ کہہ کر نہ صرف مجھے خاموش کردیا بلکہ میرے وجود اور روح کو جنجھوڑنے کا سامان بھی کیا۔ وہ جملہ یہ تھا, ” اللہ ہے نا۔۔۔۔!!
وہ چلی گئی اور میں راہداری کے کونے میں رونے لگا۔ اور اپنے ایمان اور اپنے خالی وجود اور دو آنے کی روح کو کوستا رہا۔ کیونکہ مشکل ترین حالات میں ہمارے پاس سفارش ہوتی ہے, پیسہ ہوتا ہے, اپنے دوست ڈاکٹر ہوتے ہیں, شاندار سہولیات اور کھانا پینا ہوتا ہے, آنے جانے کو گاڑیاں ہوتی ہیں۔ زیادہ خراب صورتحال کے وقت جہاز کا ٹکٹ, مہنگا ہسپتال, اور پیسہ ہوتا ہے, لیکن اللہ نہیں ہوتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگلے دن تک میرے وجود کے اندر کیا کیا ہوتا رہا۔
اگلی دوپہر میں ہسپتال کی راہداری سے گذر رہا تھا کہ اچانک مجھے وہ گوجر بہن سامنے سے آتی نظر آئی۔ اس نے بھیڑ میں مجھے نہ پہچانا, لیکن میں نے یہیں سے آواز دی کہ سنو بہن۔۔۔۔۔سب ٹھیک ہے نا ؟۔۔۔۔بیمار کا کیا حال ہے ؟۔۔۔۔اس نے مجھے پہچانا اور مسکراتے ہوئے خوشی خوشی اپنے مخصوص گوجری لہجے میں بولی کہ "اللہ گو شکر ہے۔۔۔۔صبح سرگی گا وخت نارمل ڈیلیوری ہو گئی۔۔۔ڈاکٹر صاب کہہ لگو کاغذ بناؤ دے تَم نا چھُٹی ہے۔۔۔”
میں اپنے دل کے قریب انسانوں کو اکثر یہ واقع سناتا ہوں۔ اور جب بھی کبھی کمزور انسان ہونے ناطے منہ سے کبھی مایوسی کی بات نکل جاتی ہے تو وہ مجھے یاد دلاتے ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔اللہ ہے نا۔۔۔!!