سید اعجاز
ترال//جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال سے قریب 4 کلو میٹر دور کچھملہ ترال سے تعلق رکھنے والی ایک مزدور کی بیٹی اقراءجاں دختر محمد اسمائیل بٹ سخت غربت اور قلیل وسائل کی دستیابی کے باجود وہ کام کیا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اقراءجان نے کامرس مضمون میں اسسٹنٹ پروفیسر کا امتحان پاس کر کے نہ صرف اپنے والدین بلکہ پورے گاﺅں کا نام روشن کیا ہے ۔ اقراءجان نے کامرس میں پوسٹ گریجویشن مکمل کرکے سیٹ کا امتحان پاس کر نے کے ساتھ ہی جیسے ہی کامرس میں اسسٹنٹ پروفیسر کےلئے فارم نکلے ہیں تو مزکورہ طالبہ نے بھی فارم داخل کیا ہے اور گزشتہ دنوں جب نتائج سامنے آئے تواقرار جان کا نام بھی لسٹ میں شامل تھا۔طالبہ کی کامیابی کی خبر منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی جہاں ان کے افراد خانہ نے زبردست خوشی کا اظہار کیا وہی دوسری جانب پورے گاﺅں کے لوگوں نے مسرت کا اظہار کر کے انہیں مبارک باد پیش کیا ہے ۔اس خبر کواس لئے بھی علاقے میںکافی زیادہ اہمیت ملی کیوںکہ طالبہ مالی اعتبار اسے انتہائی کمزور تھی اور انتہائی مالی مشکلات کے باوجود طالبہ نے ہمت سے کام لیا اور ثابت کر کے دیا کہ ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا۔ اقراءجان کے گھر میں خوشیوں کا زبردست ماحول ہے اور مبارکباد دینے کے لیے لوگ جوق درجوق یہاں پہنچ رہے ہیں ۔اقراءنے بتایا کہ وہ بچپن سے ہی تعلیم حاصل کرنے کی شوقین رہی ہے حالانکہ گھر میں سختی ہوتی تھی کبھی گھر والوں کے پاس کھانے کو راشن نہیں ہوتا تھا لیکن اس سب کے باوجود والدین نے مجھے اور میری دو بہنوں کوتعلیم حاصل کرنے سے نہیںروکا اور بچوں کو بتایا کہ تعلیم غربت کے خاتمے کے لئے واحد ہتھیار ہے انہوں نے مزید بتایا کہ جہاں میرے گھر میں غربت کا مسئلہ تھا وہی دوسری جانب ہمارے گھر میں کوئی بھی تعلیم یافتہ نہیں تھا کیوںکہ رہنمائی انتہائی ضروری تھی جو ہم کسی سے حاصل نہیں کر سکتے تھے۔کامیاب طالبہ نے بتایا کہ میں نے ابتداءتعلیم گاﺅں میں قائم ایک نجی اسکول سے حاصل کی اور بعد میں گریجویشن کے بعد کشمیر یونیورسٹی سے ”ایم کام“ کی ڈگری حاصل کرنے کے علاوہ جے کے سیٹ (JKSET) امتحان پاس کیا اور جونہی پبلک سروس کمیشن نے اسسٹنٹ پروفیسر پوسٹس کے لیے درخواستیں طلب کی تو میں نے فارم داخل کیا ا اور دن رات محنت کرنے لگی تاکہ میرا وہ خواب پورا ہو جائے جو میں نے دیکھا ہے ۔انہوں نے بتایا میں نے ان دنوں نیند نہیں کی ہے اور صرف میں نماز اور کھانا کھانے کے لئے کچن میں آتی تھی بہرحال وہ گھڑی آگئی جب اللہ تعالیٰ نے میری محنت رنگ لائی ۔قریب پانچ دن گزر جانے کے باوجود نہ صرف اس طالبہ بلکہ پورے گاﺅں میں ایک منفرد ماحول ہے اور اقراءاس گاﺅں کی پہلی اسسٹنٹ پروفیسر بن گئی۔اور اقراءکی عمر بہت کم ہے۔اقراءنے بتایا کہ انسان کو خواب دیکھنے چاہیے لیکن وہ خواب جو اسے سونے نہ دیں کیونکہ خواب کوحقیت میں تبدیل کرنے کے لیے نیند کے بجائے انسان کو بیدار رہنا پڑتا ہے انہوں نے بتایا کہ غریبی انسان کو منزل سے ہٹا نہیں سکتی بلکہ غریبی ہی انسان کو منزل پانے میں تحریک بخش سکتی ہے ۔مزکورہ طالبہ کے والدی محمد اسمائیل بٹ نے بتایاکہ وہ تین بیٹیوں کا باپ ہے لیکن غریبی کے باوجود بچیوں کو تعلیم کے نور سے منور کرنے کے لیے میں نے سمجھوتہ نہیں کیا ،انتہائی سخت مزدوری کی اور اب اللہ تعالیٰ نے میری محنت کو رنگ لایا اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میرے گھر میں آج کوئی بڑی تہوار ہے۔جبکہ ان کی والدہ ربینہ بانوں نے مشکلات کے دنوں کو یاد کر کے اور آج کی اس خوشی کے مارے پر نم آنکھوں سے کہا کہ اقراءنے جس طرح غریبی میں محنت کر کے مقام حاصل کیا ہے وہ یقیناً سماج میں غریب طالبات کے لیے ایک مشعل راہ ثابت ہو گا۔