*نوجوان : اسلام کی نظر میں* ؟
دین اسلام میں نوجوانوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے، جوانی ایک عظیم نعمت ہے، اور یہ مقام اس لئے عطا کیا گیا ہے کیونکہ نوجوان وہ صلاحیت رکھتا ہے جو بزرگ میں نہیں ہوتی ہے۔ اور یہ عمر کا وہ دور ہے جس میں یہ سب کچھ انجام دے سکتا ہے اور تاریخ نے اس دور کو Golden period سے تعبیر کیا ہے۔ وہ اس لئے کہ اس میں یہ توحید کا عَلَم بلند کرسکتا ہے اور باطل طاقت کا مقابلہ کرکے اس کو ختم کرسکتا ہے۔ جوانی کے قیمتی لمحات انمول ہوتے ہیں، یہ قوت و توانائی میں اس کا کوئی ثانی نہیں ، اس لیے کامیابی کے کسی بھی امیدوار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جوانی اللہ تعالی کی اطاعت میں گزارے اور جوانی کے شب و روز عبادتِ الہی سے بھر پور رکھے، قربِ الہی کی جستجو میں رہے، ہمہ وقت نفسانی اور شیطانی خواہشات کے مقابلے کیلیے جدو جہد کرے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے قبل غنیمت سمجھو، آپ نے ان پانچ چیزوں میں بڑھاپے سے پہلے جوانی کا بھی ذکر فرمایا۔ نوجوانوں کی بہتری میں امت کی بہتری ہے، لہذا یہ امت اس وقت تک خوشحال ، معزز، کامیاب، اور بہتری کی طرف گامزن نہیں ہو سکتی جب تک اس امت کے نوجوان عہد اول کے جوانوں کی طرح نہ بن جائیں، ان کی دینی وابستگی اعلی ترین، زندگی بھی خوشحال، اور کسی بھی مفید اور نیک کام کیلیے جوش و جذبہ بھی دیدنی ہوتا تھا۔
شیخ سعدی کا مشہور قول ہے ’’درجوانی توبہ کردن شیوہ پیغمبری‘‘ کہ جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا شیوہ اور طریق رہا ہے۔ ہم اگر اپنے زمانے پر نگاہ ڈالیں تو ہر تنظیم، تحریک، جماعت اور فو ج میں نوجوانوں کا کردار ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیونکہ ان سوسائٹیز، تنظیموں کا مستقبل ان نوجوانوں سے جُڑا ہوا ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کی آرزو یہی تھی کہ نوجوان شاہین بنیں۔ نوجوان اگر علامہ اقبال کی فکر اور فلسفے سے راہنمائی حاصل کریں تو وہ یقینا مثالی اور معیاری انسان بن کر قوم کی بہتر خدمت کرکے اُمتِ مسلمہ کے تمام مسائل حل کر سکتا ہیں۔ علامہ اقبال اپنی نسل کے بزرگوں سے بہت مایوس تھے کیونکہ وہ جمود اور تقلید کے شکار تھے اور تبدیلی پر مائل نہیں ہوتے تھے۔ علامہ اقبال نے بزرگ نسل کے بارے میں یہ کہا تھا :
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
علامہ اقبال کی آرزو ، تمنّا یہی تھی کہ مسلمان نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خود دار اور غیرت مند ہے دوسروں کا مارا ہوا شکار نہیں کھاتا، اپنا آشیانہ نہیں بناتا خلوت پسند ہے اور تیز نگاہ ہے۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہی خصوصیات نوجوانوں میں پیدا ہو جائیں تو وہ ایک مثالی قوم کی تشکیل کر سکتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا میں بزرگوں سے ناامید ہوں لیکن جوانوں کے لئے میرا کلام سمجھنا اللّه تعالیٰ آسان کر دے تاکہ میرے شعروں کی حکمت اور دانائی ان کے دلوں کے اندر اتر جائے اور وہ انسان کامل بن جائیں۔
علامہ اقبال نے فرماتے ہیں :
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔
بقول عطاء اللّه شاہ بخاری :
اگر قوم علامہ اقبال کو سمجھتی تو کبھی غلام نہ ہوتی۔ مگر نوجوان اقبال کو سمجھ نہ سکا اور اُن کی آرزو پر شاہین بھی نہ بن سکا۔
علامہ اقبال نے اپنی اردو شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا۔
علامہ اقبال اپنے رب سے دعا کرتے ہیں :
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
میرا نور بصیرت عام کر دے
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں، اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے قومی مقاصد کے لیے اپنے آپ کو دوسروں پر غالب کرنے کی کوشش کریں اور اپنے سماج سے ہر قسم کی برائی کو ختم کرکے ایک مثالی معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں جس میں امن سلامتی ، برداشت رواداری اور اخوت، سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں موجود ہوں۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ نوجوانوں کے خیالات بلند ہوں، انسان کامل اور مرد مومن بننے کی خواہش ان کے دل کے اندر موجود ہو۔
علامہ اقبال نے فرمایا:
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند۔
لیکن آج کا نوجوان یہ حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ شریعت نے انسان کو یہ حقیقت سمجھائی ہے کہ اس کا وجود، انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہے، بلکہ اللّه تعالیٰ کی امانت ہے، لہٰذا اس امانت کی حفاظت کرنا، اسے اللّه اور اس کے رسول کے احکام کے مطابق استعمال کرنا، اس سے وہ کام لینا جس کے لیے اس کی تخلیق ہوئی ہے اور اسے نقصان وزیاں سے بچانا لازم ہے۔ قیامت کے دن اسی جوانی کے بارے میں خصوصی سوال کیا جائے گا۔ حضرت ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللّه کے رسولؐ نے فرمایا: قیامت کے دن انسان کے قدم اپنی جگہ سے ہٹ نہ سکیں گے یہاں تک کہ اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کرلیا جائے:
عمر کن کاموں میں گنوائی؟
جوانی کی توانائی کہاں صرف کی؟
مال کہاں سے کمایا؟
اور کہاں خرچ کیا؟
جوعلم حاصل کیا اس پر کہاں تک عمل کیا؟ ( ترمذی )
لیکن آج کے نوجوانوں کو دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے، اپنے معاشرے پر نظر ڈالئیے اور دیکھئیے کہ آج کے مسلم نوجوان کہاں کھڑے ہیں؟ وہ کہاں مصروف ہیں؟ انکے مشاغل کیا ہیں؟ انکے شوق کیا ہیں؟ انکے معمولات کیا ہے؟ نوجوان منشیات، فحاشی، خرافات جیسے کاموں میں اپنی جوانی، اپنا زور لگا رہا ہے اور وہ ان میں ایسا مبتلا ہوا ہے کہ وہ سب کچھ بھول گیا ہے کہ میرا وجود کیا ہے اور میری شناخت کیا ہے۔
لیکن ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئیے کہ شیطان نوجوانوں کے ساتھ بڑی سخت دشمنی روا رکھتا ہے، اس کے لیے وہ نوجوانوں کو اہل باطل کے قافلے میں شامل کر کے جہنم کے راستے پر ڈالنا چاہتا ہے، لہٰذا مسلم نوجوانوں کو چاہئیے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کو سمجھیں اور اپنی شناخت کو مٹنے نہ دیں۔ کیونکہ قوم اُس وقت تباہ نہیں ہوتی ہے جب کسی کی موت ہوتی ہے بلکہ قوم اُس وقت تباہ ہوتی ہے جب اِس قوم کا نوجوان اپنی شناخت بھول جاتا ہے۔
الغرض نوجوان اپنے آپ پر نظر ڈالے کہ میری ذمّہ داری کیا ہے، اور میں کس حد تک اپنی ذمّہ داری سے انصاف کر رہا ہوں۔۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ذمہ داری سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
شیخ افلاق حسین
سیموہ ترال
9858163952
[email protected]