ثاقب اشرف لال گام ترال
میرے ذہن میں خیال آیا کہ اج میں اپنے بگڑے ہوئے معاشرے اور بارش نہ ہونے کے بارے میں کچھ الفاظ بیان کرو- اگر ہم اپنے معاشرے کے طرف دیکھیں گے تو ہمارا تعلق ایک ایسے معاشرے سے ہے جہاں ہر طرف اختلاف ، بدتمیزی ، بےادبی ، منافقت ، بدسلوکی ، خونریزی ، تہمت درازی، عصمت دری نظر آ رہی ہے – ہم اپنے دین سے ایسے دور ہو رہے ہیں جیسے ایک بچے کو ماں چھوڑ کے چلی جاتی ہے عمر بھر کے لیے –
حضور صلی االلہ علیہ وسلم نے اج سے پہلے ٧٠٠ سال بیان کیا کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جب لوگ نمازیں غارت کرنے لگے گے ، یعنی نمازوں کا اہتمام رُخصت ہو جاۓ گا – امانت ضائع کرنے لگے گے ، یعنی جو امانت اُن کے پاس رکھی جاۓ گی اس میں خیانت کرنے لگے گے – سود کھانے لگے گے – جھوٹ کو حلال سمجھنے لگے گے یعنی جھوٹ ایک فن اور ہنر بن جاۓ گا – معمولی معمولی باتوں پر خونریزی کریں گے ، چھوٹی چھوٹی سی باتوں پر دوسرے کی جان لیں گے – اونچی اونچی عمارتیں بنائیں گے – دین بیچ کر دنیا جمع کریں گے – قطع رحمی ، یعنی رشتےداروں سے بدسلوکی ہوگی – انصاف نایاب ہو جاۓ گا – جھوٹ سچ بن جائے گا – لباس ریشم کا پہنا جاۓ گا – ظلم عام ہو جائے ہوگا – طلاقوں کی کثرت ہوگی – ناگہانی موت عام ہو جائے گی ، یعنی ایسی موت جس کا پہلے سے پتا نہیں ہوگا – امانت دار کو خاںٔن سمجھا جائے گا یعنی امانت دار پر تہمت لگائی جائے گی کہ یہ خانتی ہے- جھوٹے انسان کو سچا سمجھا جائے گا – سچے انسان کو جھوٹا سمجھا جائے گا – تہمت درازی عام ہوگی یعنی لوگ دوسرں پر جھوٹی تہمتیں لگائیں گے – لوگ اولاد کی خواہش کرنے کے بجائے اولاد سے کراہت محسوس کریں گے یعنی لوگ یہ دعا کرنے لگے گے کہ اولاد نہ ہو – کیمنے لوگ عیش و عشرت کی زندگی بسر کریں گے – شریفوں کا ناک میں دم ہو جائے گا یعنی شریف لوگ شرافت لے کر بیٹھیں گے تو دنیا سے کٹ جائیں گے – امیر اور وزیر جھوٹ کے عادی بن جائیں گے – امین خیانت کرنے لگے گے – سردار ظلم پیشہ ہو گے – عالم اور قاری بدکردار ہوں گے یعنی عالم بھی ہیں اور قرآن کی تلاوت بھی کر رہے ہیں مگر بدکردار ہیں – لوگ جانوروں کی کھالوں کے لباس پہنے گے – لیکن اُن کے دل مردار سے بھی زیادہ بدبودار ہوں گے – سونا عام ہو جائے گا – چاندی کی مانگ بڑھ جائے گی – گناہ زیادہ ہو جائیں گے – امن کم ہوجائے گا – قرآن کریم کے نسخوں کو آراستہ کیا جائے گا – عصمت دری عام ہوجائے گی – اور ہم اسی زمانے سے گزر رہے ہیں
(اپنی خرایبوں کو پس پشت ڈال کر
ہر شخص کہہ رہا ہیں زمانہ خراب ہیں)
آج کا مسلمان بارش نے ہونے سے تڑپ رہا ہیں – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جب ایک بہری اور ذہنی طور پر ناقص بچی سے عصمت دری کی جائے – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں زنا اور خونریزی عام ہو – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں بیٹا باپ کا قاتل ہو ، بیٹی ماں کی قاتل ہو ، خاوند اپنی شریک حیات کا قاتل ہو – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں ایک انسان روزہ رسول سے واپس آ کر لوگوں کا حق کھاۓ – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں نوجوان شراب اور شہوت کا عادی ہو – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں لڑکیاں ایسا لباس پہنیں گی لباس پہنے کے بعد بھی ننگی ہو – اُس شہر میں کونسی بارش برسے گی جس میں ایک معلم اُسی بچی کے ساتھ غلط تعلقات رکھیں گا جسکو وہ پڑاتا ہو – اُس شہر میں اگر بارش برسنے کے بجائے پتھر برسے وہ بھی کم ہیں – میرے خیال سے یہی وجوہات ہیں کہ بارش کے باوجود گرمی ہے –
(جب بھی آتی ہیں موسم کی اداؤں میں تبدیلی
اپنے معاشرے کا بدل جانا بہت یاد آتا ہے )
یہ ہمارے ہے اعمال ہیں ہم یہ اپنے ہی اعمالوں کی وجہ سے یہ ظلم سہ لیتے ہیں – میرے خیال سے ہم سب مسلمانوں کو اللہ کی طرف واپس رجوع کرنا ہیں اور اُسے معافی مانگنی ہیں وہ غفور رحیم ہیں وہ بخش دیگا اور انشاء االلہ رحمت باراں سے بھی نوازے گا – آخر پہ میں اپنی اُمت مسلمہ سے یہی گزارش کروں گا کہ جاگو ابھی بھی موقع ہیں ورنہ یاد رکھنا حضرت صالح کی اُونٹنی کے قاتل صرف چار لوگ تھے مگر غرق پوری قوم ہوگئی کیونکہ باقیوں کا جرم خاموش رہنا تھا ۔
(نوٹ اادارے کا مضمون نگار کا رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)