سری نگر:۹۲،اکتوبر:جے کے این ایس : جموں و کشمیر اور لداخ ہائی کورٹ نے ہفتے کے روز 2033 کے نادی مرگ قتل عام کیس میں جموں و کشمیر پولیس کو نظرثانی کی درخواست کی اجازت دے دی۔فیصلے کا مطلب ہے کہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے پہلے اچانک روکے گئے مقدمے کی سماعت اب دوبارہ شروع ہوسکتی ہے۔جسٹس ونود چٹرجی کول نے سنیچر کی سہ پہر سنائے گئے فیصلے میں ٹرائل کورٹ کو حکم دیا کہ وہ ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے گواہوں کے بیانات”کمیشن جاری کرنے اور/یا ریکارڈنگ“ کرکے ان کی جانچ کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے۔جسٹس کول نے کہا کہ ٹرائل کورٹ تیزی سے کارروائی کو یقینی بنائے گی تاکہ معاملے کو جلد از جلد ختم کیا جا سکے۔یادرہے 2003 میں جنوبی کشمیر کے شوپیاں ضلع کے ایک دور افتادہ گاو¿ں نادی مرگ میں24 کشمیری پنڈتوں کو قتل کیا گیا تھا۔ مرکزی ملزم ضیاءمصطفی جو کہ لشکر طیبہ کا ایک کمانڈر تھا، کو گزشتہ سال اکتوبر میں مسلح افواج نے ہلاک کر دیا تھا۔ اس کیس میں پولیس اہلکاروں سمیت7 افراد کو ڈیوٹی میں غفلت برتنے کے الزامات کا سامنا ہے۔24اگست کو ہائی کورٹ نے ریاست کی نظرثانی کی درخواست کو بحال کر دیا تھا جسے دسمبر 2011 میں غیر قانونی کارروائی کی وجہ سے خارج کر دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اس سے قبل2015 میں ہائی کورٹ سے2011 کے حکم کو واپس بلانے پر غور کرنے کو کہا تھا۔نظرثانی کی درخواست میں پرنسپل سیشن جج شوپیاں کے فروری 2011 میں استغاثہ کی درخواست پر ”کمیشن پر استغاثہ کے مادی گواہوں کو جانچنے کی اجازت مانگنے“ کے حکم کو چیلنج کیا گیا تھا۔ استغاثہ نے تب دلیل دی تھی کہ گواہ وادی کشمیر سے ہجرت کر گئے تھے اور وہ شوپیان کی ٹرائل کورٹ کے سامنے خطرے کے ادراک کے پیش نظر اپنا بیان دینے سے گریزاں تھے۔ ٹرائل کورٹ نے درخواست خارج کر دی تھی۔جسٹس کول نے ہفتے کے روز کہا کہ ٹرائل کورٹ نے کیس کے مواد اور متعلقہ پہلوو¿ں کو نظر انداز کرتے ہوئے”غیر متعلقہ غور و فکر“ پر کمیشن پر گواہوں کی جانچ کے لیے استغاثہ کی درخواست کو مسترد کر دیا ہے۔بینچ نے ٹرائل کورٹ کے9فروری2011 کے حکم کو ایک طرف رکھتے ہوئے کہاکہکمیشن پر گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرنے کےلئے استغاثہ کی مذکورہ درخواست اجازت کی مستحق ہے۔عدالت نے ریاست کے اس استدلال میں قابلیت پائی کہ ٹرائل کورٹ گواہوں کی موجودگی میں استغاثہ کی دشواری کو سراہنے میں ناکام رہی اورایک گھناو¿نے نوعیت کے کیس میں نیچے کی عدالت کی کوشش کو تمام معاملات کا جائزہ لینا چاہیے۔ کمیشن پر گواہوں کو تاکہ سچائی سے پردہ اٹھایا جا سکے