بلال احمد پرے
ہاری پاری گام ترال
رابطہ ۔ 9858109109
وادیٔ کشمیر کو پیروأری کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ۔ کیونکہ یہ وادی اعلٰی پایہ کے ریشیوں، منیوں، اولیاءِ کاملین، علماء و صلحاء اور برگزیدہ بزرگوں کی وادی ہے ۔ اولیاء کرام کی اس سرِ زمین کو دنیا بھر میں اپنی منفرد پہچان ہے ۔ کشمیر میں موجود سینکڑوں بلند پایہ اولیاء کرام کی خانقاہیں، درگاہیں و عبادت گاہیں اقوام عالم میں کشمیریوں کے عقیدے کی عکاسی کرتی آئی ہیں ۔ جن میں حضرت میر سید علی ہمدانی ؒ المعروف شاہ ہمدان، حضرت میر محمد ہمدانی ؒ، حضرت شیخ بابا داؤد خاکی ؒ، حضرت شیخ حمزہ مخدومیؒ، حضرت شیخ یعقوب صرفیؒ، حضرت نصیب الدین غازیؓ، حضرت شیخ العالم ؒ، حضرت نجم الدین ؒ، حضرت سید شکر الدین ؒ، حضرت سید محمد فیروز الدین بخاری ؒ، حضرت سید محمد بخاری ؒ، حضرت ملک امان اللہ شاہ ؒ، حضرت سید ملک جمیلؒ، حضرت سید احمد کرمانیؒ، حضرت روپی ریشیؒ، حضرت بابا شیخ حیدرؒ، حضرت شیخ داؤدؒ المعروف بھتہ مألو قابل ذکر ہیں ۔
ان ہی اولیاء کرام میں حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ ہے جنہیں وادئ کشمیر کے لوگ عموماً "علمدارِ کشمیر” (Flag Bearer of Kashmir) اور کشمیری پنڈت خصوصی طور ” نند ریشی ” یعنی خوبصورت ریشی کے لقب سے ہمیشہ یاد کرتے ہیں ۔ حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ سنہ 1377 عیسوی یعنی 779 ہجری میں ضلع کولگام کے کھی (Khi) جوگی پورہ (کیموہ) نامی گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ جب کہ آپؒ سنہ 1440 عیسوی بمطابق 842 ہجری میں 63 سال کی عمر میں خالقِ کائنات سے جا ملے اور چرار شریف، بڈگام میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود ہے ۔
یہاں اس بات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ ؒ کی عمر ہادی عالم، امام الانبیاء، ختم الرسل، سرور قونین، خیر الانام، احمد مجتبٰی، محمد رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کے برابر دنیا میں گزری ہے ۔ لیکن علاقہ چرارشریف کے مشہور و معروف مصنف اور شیخ العالمؒ کی تحقیق پر خصوصی عبور رکھنے والے اسداللہ آفاقی صاحب کا ماننا ہے کہ تحقیق، تاریخی شواہد اور عقلی سوچ سے یہی پتہ چلتا ہے کہ 757ھ (1356ء) جیسا کہ حضرت بابا داؤد خاکیؒ نے آپ کا سال ولادت اور 842 ہجری آپ کی وفات کا سال بتایا ہے، صحیح ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ شیخ العالم ؒ 85 سال زندہ رہے ہیں ۔ آفاقی صاحب اپنی کتاب "حیاتِ شیخ العالمؒ” میں لکھتے ہیں ’’کیونکہ اس وقت کے اندر وہ تمام واقعات ہیں جن میں لالہ عارفہ، امیرِ کبیرؒ سے ان کی ملاقاتیں، 814 ہجری میں حضرت میر محمد ہمدانیؒ سے ان کی ملاقات اور علی شاہ کے دور میں ان کی گرفتاری شامل ہیں ۔
آپؒ کے والد کا اسم مبارک بابا سالار الدین اور والدہ محترمہ کا اسم مبارک سدّرہ موجی ہیں ۔ اصل میں آپؒ کے آبا و اجداد اوجین (Ujjain) سے تعلق رکھتے تھے اور ان کے پشت سے ایک اولاد کشتواڑ کے علاقے کا راجا بن گیا ۔ جس نے کئیں نسلوں تک وہاں حکومت کیں ۔ اور انہی کی نسل سے سالار سنز تھا جو بعد کشتواڑ کو چھوڑ کر بجبہاڑہ آیا تھا ۔ جہاں اُنہیں یاسمن ریشی اور سید حسین سمنانی ؒ کی خدمت میں بیٹھنے کا موقع نصیب ہوا اور اس طرح اُن کی زندگی بدل گئی ۔
دوسری جانب علمدار کشمیر کی والدہ محترمہ سدرہ موجی کے والد بھی راجہ تھے جو بھاگ کر کھی، جوگی پورہ کولگام آگئے تھے ۔ وبائی بیماری میں ان کے سبھی لوگ مر گئے تو سدرہ موجی کو کھی (Khi) جوگی پورہ کے چوکیدار کے گھر میں ہی پرورش ہوئی ۔ بعد میں یاسمن ریشی اور سید حسین سمنانی ؒ نے سلر سنز جو اب سالار الدین بن چکا تھا کی شادی سدرہ موجی سے کھی، جوگی پورہ میں کر دی ۔ جن کے بطن سے حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ پیدا ہوئے ۔
حضرت شیخ العالم ؒ کا نکاح ڈاڈسرہ، ترال کے رہنے والے اکبر الدین کی بیٹی زاہدہ المعروف ذائ دید کے یہاں ہوا تھا ۔ جن سے آپ کو حیدر نام کا ایک بیٹا پیدا ہوئے اور زونی نام کی بیٹی پیدا ہوئیں ۔ جنہیں بعد میں حضرت شیخ العالم ؒ نے ایک غار کے اندر کمبل اوڑھ رکھی اور وہ مالکِ حقیقی سے جا ملے ہیں ۔ اس پر آپؒ کے زوجہ کے دو بھائی جمال الدین اور کمال الدین نے شکایت کیں اور شیخ کو گرفتاری کی نوٹس نکل گئی ۔ جس کے لئے اس وقت کے کوتوال تأز بٹ آپؒ کو اننت ناگ سے گرفتار کرنے کے لئے آیا ۔ لیکن شیخ العالم ؒ کے یہاں پہنچنے پر آپؒ کا کمال دیکھ کر وہ زائ دید کے ہمراہ آپؒ کے مرید بن بیٹھے ہیں ۔
دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ و اصلاح کے تئیں، شیخ العالمؒ کے گراں قدر خدمات ہیں ۔ جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ آپؒ کا شمار کشمیری زبان و ادب کے ابتدائی شاعروں میں ہوتا ہے ۔ آپؒ نے اپنی لازوال شاعری کے زریعے اسلامی تعلیمات کو کشمیری زبان میں وادی کے کونے کونے میں خوب پھیلایا اور اس سے یہاں کے عوام الناس میں زبان زدِ عام کیا ۔ یہاں کے خطیب حضرات اکثر جمعہ کے موقع پر قرآن و حدیث کے ساتھ ساتھ آپؒ کے شرکھ کو آپسی ربط دے کر سامعین کے دلوں میں ایمان کی جلا بخشتے ہیں ۔
آپؒ کا کلام عارفانہ، مبلغانہ، واعظانہ ہونے کے ساتھ ساتھ تزکیہ نفس توحید پرستی اور حقیقت نگاری کا آئینہ دار ہے ۔ اُن کے کلام کو آج بھی لوگ کأشر قرآن کے نام سے پکارتے ہیں ۔ ان کے کلام میں قرآن کریم کی آیتوں اور احادیث مبارکہ کا کشمیری تفسیری درس موجود ہے ۔ شیخ العالمؒ اپنے کلام میں اس واضح حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ رب الزوجلال یکتا و واحد ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، فرماتے ہیں ۔
اول الف کُنے اللہ
اَولہ پتہ اخیر َزوال نہ تَس
صدیاں گزرنے کے بعد بھی لوگ آپؒ کا کلام روحانی محفلوں، مسجدوں، تعلیمی اداروں اور دیگر روح پرور مجلسوں میں بڑی عقیدت کے ساتھ پڑھتے ہیں اور اپنے ایمان کو تازہ کرتے ہیں ۔ کیونکہ آپؒ کا کلام قرآن و سُنت کا ماحصل، نچوڑ اور خمیر ہے ۔ آپؒ فرماتے ہیں :
لا الہ الا اللہ صحی کورُم
وحی کورُم پنُنے پان
وجود ترآوتھ موجود میولم
ہر موکھ وچھم پنُنے پان
حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ اپنے زمانے کے مشہور و معروف صوفی بزرگ تھے ۔ آپ ؒ صوفی سلسلہ ریشیت کے بانی ہے ۔ تواریخ کے مطابق شیخ العالمؒ کا دور اس وقت تھا، جب وادئ کشمیر میں سُلطان زین العابدین یعنی بڈشاہ کی حکومت تھی ۔ آپؒ نے وادی کے طول و ارض میں صحراؤں، بیابانوں، کوہساروں اور سبزہ زاروں میں اپنی داعیانہ دین کی خدمات انجام دی ہیں ۔ جس کے لیے آپ ؒ نے بے شمار دیہات کا رُخ کیا ۔ تاکہ یہاں کے لوگوں کو سادہ ترین مقامی کشمیری زبان میں دینِ اسلام کی تعلیمات سے روشناس کر کے ایمان کی حلاوت سے ہمکنار کیا جائے ۔ اس کے مزید آپؒ نے ماحول کے تحفظ کے خاطر بھی مؤثر انداز میں تحریک چلائی جس سے آپؒ کا ماہرِ ماحولیات کا ہونا بھی پتہ چلتا ہے ۔ آپؒ نے بے حد خوبصورت، مختصر لیکن جامع انداز میں ماحولیاتی نعرہ (Environmental Slogan) ارشاد فرمایا ہے کہ
أن پوشہ تیلہ ییلہ ون پوشہ
یعنی پیداوار تب ہی ممکن ہے جب جنگل محفوظ رہیں گے ۔
Sustenance is subservient to forests
یہی وجہ ہے آپؒ نے اکثر و بیشتر مقامات پر مختلف اقسام کے پیڑ پودے لگائے ہیں جن میں چنار، برن، برمجی، شہتوت وغیرہ قابل ذکر ہیں اور آپ کے کلام میں اس سے دو گنا پیڑ پودوں کی ذکر ملتی ہے ۔
دینِ اسلام کے اِسی مشن اور نظریہ کی آبیاری کرنے کے غرض سے آپ ؒ نے ضلع پلوامہ کے قصبہ اونتی پورہ کے موضع ہاری پاری گام کا بھی انتخاب کیا ۔ یہاں علمدار کشمیر ؒ نے بستی سے تقریباً ۲۰۰ میٹر کی دوری پر جنوب مشرقی ڈھلوان دار زمین کے ایک ٹکڑے کو اپنی عبادت کے لئے منتخب فرمایا ۔ آپؒ یہاں ایک مختصر وقت کے لئے تشریف آور ہو چکے ہیں ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ بھی رہی ہوگی کہ آپؒ کا سسرال موضع ہاری پاری گام سے تقریباً 5 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔
آپؒ کے یہاں تشریف آوری کے مقام پر اس وقت آستان عالیہ موجود ہے ۔ جس سے پچھلے کئی دہائیوں سے تقریباً ۳ دفعہ تعمیر کیا گیا ہے ۔ موجودہ زیارت گاہ کا احاطہ تقریباً 2 کنال اراضی پر مشتمل ہے ۔ یہ ۳۰۰ سالہ قدیم آستان عالیہ اپنی پرانی تعمیر لیکن جدید رنگ و روغن سے زینت کی ہوئی ہے ۔ اور بجلی سپلائی کی سہولت سے لیس ہے ۔ اور اس احاطہ کے اندر ایک غار (گُھپا) بھی موجود ہے ۔ جس میں روایات کے مطابق آپؒ تنہائی میں اللہ تعالٰی کی عبادت کیا کرتے تھے اور اسی کے اندر اپنی رہائش بھی کرتے تھے ۔ یہ آستان تقریباً عمومی طور پر اخروٹ کی لکڑی کا تعمیر کردہ ایک منزل پر مشتمل ہے جو تقریباً 12×12 اسکور مکعب فٹ کی ہوگی ۔ آستان کی چھت ٹین پوش کی ہے ۔ جس کے اوپر قبا لگا ہے اور لکڑی اس وقت کی ڈیزائن کی ہوئی ہے ۔ اندر جانے کے لئے شمال کی طرف دروازہ ہے جب کہ مرکزی مقام کی زیارت کے لئے دوسرا دروازہ برلب مشرق ہے ۔ آستان عالیہ میں تقریباً ۳۰ افراد کے نماز ادا کرنے کی جگہ موجود ہے ۔ باہر کی دیواریں لکڑی کی ہے اور چاروں طرف سے پتلی جالی سے سجائی گئی ہے ۔ جب کہ مرکزی صحن کی دیواریں پختہ رنگ و روغن سے سجائی گئی ہے ۔
تاریخی حقائق کے مطابق آپ ؒ 800 ہجری یعنی چودھویں صدی کے آس پاس پاری گام کی اس چھوٹی سی بستی میں اس وقت کے لوگوں کو دینِ اسلام کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے غرض سے تشریف فرما ہوئے ۔ لوگوں کی اصلاح کرنے اور انہیں دینِ اسلام سے روشناس کرنے کے بعد آپؒ نے اس بستی کو خیر باد کہہ دیا اور دین کی حفاظت، اشاعت اور اقامت کی کوشش کرتے ہوئے دوسرے علاقوں کے جانب اپنا رُخ کر دیا ۔ جو آپؒ کا اصل مقصد تھا ۔
دوران قیام، اپؒ سے یہاں دو بڑی کرامات کا ظہور ہوا ہیں ۔ جن میں اول الذکر قدیم شہتوت کا درخت اور دوم صاف و شفاف اور زائقہ دار پانی کا چشمہ ہے ۔ یہ دونوں کرامات عقیدت مندوں کے لئے آج کی تاریخ میں بھی آستان عالیہ کے دوسری جانب مشرقی طرف وہاں موجود ہیں ۔ جس کا احاطہ تقریباً 10 ایکڑ اراضی ہے ۔ اور مقامی بستی نے اسی اراضی کے ایک چھوٹے سے حصّے کو عیدگاہ بنایا ہیں ۔ مانا جاتا ہے کہ شیخ العالمؒ اسی چشمے کا پانی اپنی روز مرہ کی زندگی میں استعمال کیا کرتے تھے ۔ اور بستی کے لوگ بھی اس چشمہ کے پانی کو کئیں دہائیوں سے نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ استعمال کرتے آئے ہیں ۔ اور آج کی تاریخ میں اس چشمہ (8×10) کو جموں و کشمیر انتظامیہ نے محفوظ بنانے کے لئے ہر طرف پتھر کی دیوار بنائی ہے اور مقامی بستی نے اس کی چھت کو باڑ (Fencing) سے پانی کو محفوظ بنایا ہے ۔ جب کہ امرت سروور (Amrit Sarovar) کے تحت اس کی بیرونی اطراف کو رنگین اور دلکش بنایا گیا ہے ۔ چنار کا ایک خوبصورت پیڑ بھی اس چشمے کے پاس موجود ہے، جس کے سایہ سے یہ مزید پرکشش بنا ہے ۔ کئیں تعلیمی ادارے سیّر و تفریح اور تاریخی و مذہبی سفر کرنے کے غرض سے سال بھر یہاں آتے رہتے ہیں ۔
روایات کے مطابق حضرت شیخ العالم ؒ کو حجامت کی ضرورت پڑی، تو اس وقت شاعرون نامی حجام نے اس سے فقیر سمجھ کر اور معاوضہ نہ ملنے کے خدشہ سے حجامت کرنے سے لعت و لعل سے کام لیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جب وہ حجام کچھ مسافت آگے چلا، تو اس نے تھیلے میں رکھا ہوا حجامت کا سامان گُھم پایا، وہ واپس دوڑتے ہوئے ولی کامل شیخ العالم ؒ کے زانوئے حاضر ہوئے اور اپنی غلطی کا اعتراف کیا ۔ جب حجامت کرنے پر تیار ہوا تو پانی کی عدم دستیابی کا بہانہ بنایا ۔ لیکن ولی کامل نے حجام کے کسی اوزار (استرے) کو اپنے مبارک ہاتھوں میں لیا، اور زمین پر ضرب مارتے ہی پانی پھوٹ پڑا جس نے بعد میں چشمہ کی صورت اختیار کیں ہے ۔ اور یہ چشمہ تا دم تحریر رواں دواں ہے ۔
اسی طرح کی ایک اور روایت بزرگوں سے سننے میں آئی ہے کہ جب ولی کامل حضرت شیخ العالم ؒ کو آگ جلانے کی ضرورت آپہنچی تو آپ ؒ نے شہتوت کی ایک لکڑی کا ٹکڑا لے لیا ۔ جب لکڑی کا یہ ٹکڑا جلانے کے کام نہ آیا تو آپ ؒ نے اس سے پھینک کر فرمایا کہ
” نہ ژہ گوڈ ، نہ ژہ تہور ”
یعنی نہ اس کی جڑ، نہ نوک (سرا)
Neither roots nor tip
اور آج کے تاریخ میں بھی شہتوت کا یہ پودا یہاں تقریباً کہیں ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے ۔ جو تقریباً 600 سال پرانا ہے ۔
برصغیر ہند و پاک کے دیسی (پنجابی) کلینڈر کے مطابق یہاں کے مقامی لوگ آپؒ کے یوم وصال کے بجائے دسویں مہینے کے ” 26 پوہ (Poh)” (پوہ معنی سخت سردی) کو آپؒ کا عرس نہایت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ کئیں دہائیوں سے مناتے آئے ہیں ۔ جس میں عقیدت مند صبح نمازِ فجر کے بعد ہی اورادِ فاتحہ، ختمات المعظمات اور دیگر روح پرور مجلس کی ذکر سے جھوم اٹھتے ہیں ۔ اور روحانی مجلس کے اس پُر نور ماحول سے فیضیاب ہو جاتے ہیں ۔ لیکن یہاں کسی تبرکات کی زیارت نہیں کرائی جاتی ہے ۔ جب کہ شام کو مقامی بستیوں کی مستورات، کشمیر کی اپنی رسم کے مطابق اس زیارت گاہ پر تہری (cooked yellow rice) لا کر غریبوں، مسکینوں، بھوکوں اور مسافروں میں تقسیم کرتے ہیں ۔
دیکھا جائے تو آج بھی اس قدیم زیارت گاہ پر عقیدت مندوں کا تانتا باندھا ہوتا ہے ۔ اور اکثر عقیدت مند خصوصی طور پر جمعرات کے روز یہاں شب خوانی کے لئے آتے ہیں ۔ مشہور و معروف محقق، مصنف، ڈاکٹر نثار احمد بٹ صاحب ترالی نے اپنی مشہور تصنیف ” آئینہ ترال ” میں موضع ہاری پاری گام میں واقع اس قدیم زیارت گاہ کی ذکر بڑی خوبصورت اور دلکش انداز میں کی ہے ۔
الغرض حضرت شیخ نور الدین نورانی ؒ کی حیات مبارک و خدمات کو ایک نئے سرے سے اُجاگر کرنے کی ضرورت ہیں تاکہ آپ ؒ کی مقدس ذات سے نہ صرف نئی نسل کو آگاہ کیا جائے بلکہ آپؒ کے قول اور فعل پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کیں جائے ۔