بشارت رشید
ترال: جہاں وادی کشمیر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انگریزی اور اردو شاعری میں اہم کارنامے انجام دے رہے ہیں، وہی جنوبی کشمیر کے قصبہ ترال سے دو کلومیٹر دور، امیر آباد گاؤں کی ایک شاعرہ تقریباً تین دہائیوں سے کشمیری زبان میں شاعری کر رہی ہے۔ دلشادہ کے نام سے مشہور یہ شاعرہ اپنا قلمی نام مسکین جبین کے طور پر استعمال کر رہی ہے، جس نے پہلے 1991 میں اپنی شاعری کا آغاز کیا تھا۔ مزکورہ شاعرہ نے کچھ سال پہلے شاعری کی ایک کتاب بعنوان ‘بال نیرس ونہ وان’ بھی شائع کی ہے، جس کے بعد انہیں 2018 میں سرینگر میں مہک ڈرامیٹک کلب کی جانب سے انفوٹیل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سرینگر میل کے ساتھ بات کرتے ہوئے دلشادہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے شروعات سے لیکر آج تک شاعری کرنا کبھی نہیں چھوڑا، جبکہ وہ اب بھی نئی شاعری کی اشاعت کے لیے پوری کوشش کر رہی ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ چاہتی ہیں کہ کشمیر کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں انگریزی اور اردو کے ساتھ ساتھ کشمیری شاعری میں بھی دلچسپی ظاہر کریں، تاکہ اس زبان کو بڑھاوا مل سکے۔ شاعرہ دلشادہ کے مطابق کشمیری زبان ایک میٹھی زبان ہے، جس کو یہاں کا ہر فرد سمجھ سکتا ہے۔