سوپور:۵۱،دسمبر:کشمیر میں آئے دنوں بالغ اور نابالغ افراد کی جانب سے خودکشی کئے جانے کے واقعات رونما ہوتے ہیں ،اوراس انتہائی اقدام کے پیچھے کوئی نہ کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جس کاتعلق ہمارے معاشرے کی زبوں حالی ،نوجوان نسل کی غلط صحبت ،غربت اور بعض اوقات ذہنی ونفسیاتی دباﺅ بھی ہوتاہے ۔جے کے این ایس کے مطابق 4روز قبل سوپور کے جامع قدیم پُل سے ایک 17سالہ نوعمر طلبہ نے دریائے جہلم میں چھلانگ لگاکر اپنی زندگی کاخاتمہ کرڈایا،اوراب تک اس معصوم کی نعش کوجہلم سے برآمد نہیںکیا جاسکاہے ۔اُسکی ماں مسلسل چار دنوں سے جہلم کے کنارے پہنچ کر یہ کہتی سنی جارہی ہے کہ میری بیٹی لو گ تمہارا انتظار کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا پر9ویں جماعت کی اس نوعمر طالبہ کی خودکشی کے بارے میں قیاس آرائیوں کی بھرمار ہے لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہے۔ تاہم، اس کی والدہ بتاتی ہیں کہ ان کی بیٹی کی خودکشی کی وجہ غربت کے نتیجے میں ڈپریشن تھی۔ جہلم میں کود کر اپنی جان دینے والی نوعمر طالبہ کی غمزدہ ماں کہتی ہیں کہ میری بیٹی کے والد کا انتقال تقریباً12سال قبل ہوا تھا اور اس کا بھائی گردے کی بیماری میں مبتلا ہے۔انہوںنے بتایا کہ چند روز قبل میری یہ بیٹی سخت ڈپریشن یا ذہنی دباﺅکی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماری میں مبتلا تھی۔ وہ مسلسل درد شقیقہ اور سینے کے درد میں مبتلا تھی،میں اسے ہسپتال لے گئی جہاں اُس کا علاج کیا گیا۔نوعمر بیٹی کی المناک موت سے سخت دلبرداشتہ ماں نے کہاکہ خودکشی کے دن وہ اپنے چچا کے گھر گئی تھی۔ جب وہ واپس آئی تو میں نے اسے نن چائی (گلابی چائے) دی جو اس نے لی اور پانی کا گلاس مانگا۔میںنے اُس کوپانی کاگلاس دیا اوراُس نے ایک گولی (دوا) لی۔بیٹی نے مجھے بتایا کہ پیسے کی کمی کی وجہ سے وہ دوائیوں کی صرف ایک پٹی لائی ہے، میں نے جواب دیا کہ پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں، میں مزید دوائیاں لاﺅں گی۔غمزدہ ماں کے بقول اُسکی بیٹی نے ایک گولی لی اورمیں خود ایک رشتہ دار کے گھر چلی گئی ۔خاتون نے بتایا کہ جب وہ گھر واپس آئی تو اس نے بیٹی کے بارے میں دریافت کیاتو میری بڑی بیٹی نے مجھے بتایاکہ وہ آپ کے بعد گھر سے چلی گئی۔انہوں نے مزید کہا کہ باہر دکاندار نے مجھے بتایا کہ میری بیٹی جہلم ندی پر پل کی طرف چل رہی ہے۔ایک اور خاتون نے مجھے بتایا کہ اس نے میری بیٹی کو پل پر دیکھا۔ بمیری بڑی بیٹی جو اپنی چھوٹی بہن کو بھی تلاش کر رہی تھی اس نے بہن کو پل کی حفاظتی دیوار پکڑے دیکھا۔غمزدہ ماں کاکہناتھاکہ جب میری اس بیٹی نے اپنی بڑی بہن کو اپنے قریب آتے دیکھا تو اس نے دریا میں چھلانگ لگا دی۔اس کے بعد سے جموں کشمیر پولیس دیگر امدادی ٹیموں کےساتھ مل کر نوعمرطالبہ کی لاش کا سراغ لگانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن چوتھے دن کوصبح تک بھی اُسکی نعش کوبرآمد نہیں کیا گیاتھا ۔انہوں نے ضلعی انتظامیہ سے اپیل کی کہ کسی بھی بچے کو سرکاری ملازمت فراہم کی جائے۔ تاکہ وہ بے فکر زندگی گزار سکیں۔متعلقہ ڈپٹی کمشنر نے اپنے ٹویٹر ہینڈل پرایک ٹویٹ کاجواب دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے، ”بھائی نے پہلے ہی کچھ نقد رقم کے ساتھ خاندان کی مدد کی ہے۔ سرکاری نوکری نہیں دی جا سکتی، آپ جانتے ہوں گے۔ دوسری مدد کے لیے رابطہ کیا جائے گا!“