آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں۔
مرحوم حبیب اللہ ریشی کی صوفیانہ شاعری۔
کچھ یادیں۔
معراج زرگر۔
مرحوم حبیب اللہ ریشی ہمارے قریبی ہمسایہ تھے اور ہمارے محلے میں ایک معتبر, مُحّب, بذلہ سنج, انسان دوست اور قدر شناس شخصیت تھے۔ اپنے مزاج اور آہنگ کے دوست کئی تھے جن کے ساتھ بھائیوں جیسا تعلق اور رواداری تھی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں محلے سے دور ہوئے اور کالج روڑ پر نئے مکان میں منتقل ہوئے۔ زندگی انتہائی سختی اور محنت سے گذاری۔ سماع اور صوفیت سے مرتے دم تک جڑے رہے۔ میرے سب سے قریبی دوست جاوید ریشی کے چچا تھے۔ اس طرح مرحوم سے اکثر ہم کلامی رہتی تھی اور اکثر بات چیت ہمارے یہاں رائج صوفی مشرب اور صوفی شاعری پر ہی ہوتی تھی۔ اور زندگی کی تلخیوں, تجربوں اور بے اعتباری پر اکثر اوقات میں سیر حاصل بحث ہوتی تھی۔
2000ء کے اوائل میں ایک دن جاوید صاحب کو کچھ درخواستیں یا پرچہ جات کی ٹائیپنگ درکار تھی اور ہم قبلہ مولوی اشرف علی نازشٓ صاحب کے گھر چلے گئے جہاں ان کی ایک صاحبزادی ٹائپنگ کرتی تھی اور اس وقت ترال میں بس دو یا تین ہی لوگ اچھی ٹائیپنگ سے واقف تھے۔ جتنی دیر مولوی صاحب کی صاحبزادی اپنے کمرے میں ٹائیپنگ کرتی رہی, اتنی دیر ہم مولوی صاحب کے پاس بیٹھے رہے جو کتابت میں مصروف تھے۔ یاد رہے کہ مولوی صاحب ایک شاندار کاتب اور خود بھی ایک اچھے اور معیاری شاعر ہیں۔
باتوں باتوں میں مولوی صاحب نے جاوید صاحب سے مخاطب ہوکر کہا کہ زرا میرے پاس آؤ اور اس شاعری کو پہچانو۔ انتہائی اشتیاق میں ہم دونوں اٹھ کر مولوی صاحب کے سامنے بیٹھے اور انہوں نے ایک کھاتہ کتاب ہمیں دی اور کہا کہ زرا پڑھو۔ میں نے جب پڑھنا شروع کیا تو پہلے ہی محسوس ہوا کہ کسی کہنہ مشق اور مستند شاعر کی صوفی شاعری ہے۔ پہلی ہی غزل کے مقطع میں "ریشہ حبیب” کے تخلص پہ ہم دونوں چونکے اور ہمارے چونکنے پر مولوی صاحب نے مسکراتے ہوئے جاوید صاحب سے فرمایا کہ یہ شاعری آپ کے چچا حبیب اللہ ریشی کی ہے اور میں اس کی کتابت کر رہا ہوں۔
حیرانگی اور تجسس کے عالم میں, میں نے سرسری طور کئی غزلیات پڑھ لیں اور اتنی دیر جاوید صاحب بڑے خوش اور فخریہ انداز میں مولوی صاحب سے مخاطب رہے۔ میں نے اس دوران جتنا بھی پڑھا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں ایک گوناگوں کیفیت سے دوچار ہوا۔ مرحوم موصوف کی شاعری بڑی جاندار تھی اور اس میں ہمارے یہاں کی رائج صوفی شاعری کی اگر ساری نہیں مگر بیشتر خوبیاں نظر آئیں۔ مقامات, احوال, فنا و جذب, بقا, فراق و وصال, حق و خیر, تعذیبِ نفس اور زکر آخرت وغیرہ کو پڑھ کر یقین ہی نہیں ہو رہا تھا کہ یہ مرحوم کی شاعری ہو سکتی ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مرحوم کی نقل مکانی کے نتیجے میں ان سے اس پہلو پر بات ہی نہیں ہوئی تھی۔
یہ بات بری طرح دل و دماغ میں کھٹکتی رہی اور مرحوم سے ملنے کا شوق اور ان کی شاعری پر بات کرنے کے لئے موزوں وقت کا انتظار رہا۔ ایک ہڑتال کے دن ایک درویش دوست اچانک بس اسٹینڈ میں ملے اور کہیں جانے کا تقاضا کیا۔ میرے دل میں اچانک مرحوم حبیب اللہ ریشی سے ملنے کا خیال آیا۔ میں نے اپنے درویش دوست سے اس بات کا زکر کیا اور ساتھ ہی مرحوم کی شاعری کا بھی زکرِ خیر کیا۔ اور ہم دونوں ان کے گھر واقع کالج روڑ پہنچے۔
وہ مجھے اور میرے دوست کو دیکھ کر اتنے خوش ہوئے جیسے ہزاروں سال بعد اپنے کسی اکلوتے بیٹے سے ملے ہوں۔ گرمجوشی سے استقبال کیا اور اندر کمرے میں لے گئے۔ گھر میں ان کی نیک اور صالح زوجہ مرحومہ کو آواز دی کہ زرا دیکھو کون آیا ہے۔؟ مرحومہ نے میرا ماتھا چوما اور بہت خوش ہوئیں۔
چونکہ مرحوم ایک آدم شناس شخص تھے۔ تو آپ تھوڑی دیر بعد پوچھ ہی بیٹھے کہ آج کیسے یہاں آنا ہوا۔۔؟ میں نے سیدھے مولوی صاحب کے ہاں ان کی کتابت کے لئے رکھی ہوئی شاعری کا حوالہ دیا۔ اور پوچھا کہ میں وہ شاعری دیکھ کر بڑا متاثر ہوا ہوں۔ وہ اپنے بیٹوں اور بھتیجوں سے زیادہ میری عزت و تکریم کرتے تھے۔ اور اس لمحے بھی سر کو کافی دیر جھکائے رکھا اوت بڑے سنجیدہ نظر آئے۔ جب کہ وہ اکثر اوقات بذلہ سنجی اور ہلکی پھلکی باتیں ہی کرتے تھے۔ مگر شاعری کے متعلق میرے پوچھنے پر بہت زیادہ سنجیدہ ہوئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہا کہ میں نے یہ بات کسی کو نہیں کہی ہے, مگر آج آپ سے کہہ ہی لیتا ہوں۔
مرحوم پیری مریدی اور فقیری وغیرہ کے سخت قائل تھے۔ اور سماع سننا ان کی جیسے غذا تھی۔ ان کی صحبت ہِلڑ اننت ناگ کے ایک مشہور درویش حضرت رحمان صاحب سے اوائل ہی سے تھی۔ اور ان سے مرحوم کی صحبت اور ملنا جلنا رہتا تھا۔ مرحوم نے مجھے بتایا کہ ان کے پیر رحمان صاحب نے ایک دن اچانک اپنے تین خاص مریدوں اور مرحوم کو پیغام بجھوایا کہ یہاں ہِلڑ اننت ناگ رات کے لئے حاضر آجاؤ۔ مرحوم نے کہا کہ مقررہ دن ہم چاروں ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رات کے کسی پہر رحمان صاحب نے نصائح اور کچھ ضروری ہدایات کے بعد فرمایا کہ ان کا اس دنیا سے جانے کا وقت کچھ دن میں طئے ہے اور آپ چاروں نے میری ہمیشہ خدمت کی ہے۔ آج بولو کہ اس خدمت کا کیا صلہ چاہیے۔
مرحوم موصوف نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم چاروں زارو قطار رونے لگے مگر ہمارے مرشد نے حیات و ممات پر ایک عجیب دلیل و فلسفہ سے ہمیں روشناس کراکر پھر سے کہا کہ آج مانگو کیا مانگنا ہے, جو میں اللہ کے ایک بندے کی حیثیت سے آپ کو دے سکتا ہوں۔ مرحوم نے مجھ سے کہا کہ میرے تینوں ساتھیوں نے یک آواز ہو کر بولا کہ ہم بھی پیری مریدی کرنا چاہتے ہیں۔ تو اس پر ہمارے مرشد نے کہا کہ جاؤ کل سے اللہ کے اذن سے پیری مریدی کرنا۔
مرحوم نے ایک آہ لیکر کہا کہ جب رحمان صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ حبیب اللہ۔۔۔۔آپ کیا چاہتے ہو۔ ؟ مرحوم نے مجھے بتایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے کیسے بولا کہ مجھے شاعری کرنا ہے۔ اور اس پر میرے مرشد نے مسکرا کر کہا کہ جاؤ کل سے شاعری کرنا۔
مرحوم ایک۔خاص طرز کی قسم کھاتے تھے۔ ” لا الہ اللہ محمد الرسول اللہ ﷺ”۔ آپ نے یہی قسم اس وقت بھی کھائی اور مجھ سے کہا کہ اگلے دن جب وہ گھر واپس آرہے تھے تو میٹا ڈور گاڈی میں اچانک انہیں محسوس ہوا کہ وہ کچھ لکھنا چاہتے ہیں۔ مرحوم نے کہا کہ ان کے پاس نہ تو کاغذ تھا اور نہ ہی قلم۔ اور گاڑی میں کسی شخص سے کاغذ کا ایک ٹکڑا اور قلم لیکر انہہوں نے اپنی پہلی غزل لکھی۔ آپ کے کمرے میں ایک چھوٹا چوبی صندوق تھا اور اس میں سے ایک ڈائری نکال کر ردی کاغذ پر لکھی ہوئی وہ پہلی غزل ہمیں دکھائی۔ اور پھر سے مخصوص قسم کھاکر مخاطب ہوئے کہ یہ سب اللہ اور اس کے رسولﷺ اور میرے مرشد کی عنایت ہے۔ ورنہ میں ایک عاجز اور ان پڑھ انسان اس قابل کہاں کہ ایسی شاعری لکھ سکوں۔ اور یہ بھی کہا کہ اچانک میرے ذہن میں آتا ہے کہ مجھے کچھ لکھنا ہے اور میں لکھنا شروع کرتا ہوں۔ اور ہمیشہ ایک ڈائری اور قلم اپنے پاس رکھتا ہوں۔
مرحوم نے یہ بھی بتایا کہ اکثر سفر کے دوران اور رات کے وقت وہ یہ شاعری کرتے ہیں۔ آپ نے ساری شاعری اپنی حیات کے اواخر سالوں میں لکھی۔ ان کی شاعری کا کچھ حصہ کلچرل اکیڈمی کشمیر نے بھی کچھ سال پہلے چھاپا تھا۔ اور ان کی بہت ساری شاعری سماع میں بھی پڑھی جاتی ہے۔ آج ان کی شاعری کے مجموعے ” سیرِ حق” کی سادہ رسم رونمائی ہوئی۔
اللہ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے۔ اور ان کی شاعری کے مفید اور کارآمد حصوں سے تشنگانِ علم کی پیاس بجھائے۔