شیخ افلاق حسین
سچ بولنا اعلیٰ انسانی صفت ہے اور اخلاق کی سب سے بڑی پہچان ہے۔ ﷲ تعالیٰ کے یہاں انسانوں کی سب سے اچھی صفت ہے اور بُری صفت جھوٹ بولنا ہے۔ جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ فاسق و فاجر قرار پاتا ہے اور نہ اس کی عبادت قبول ہے اور نہ گواہی مقبول ہے، سچے انسان کی عبادت بھی قبول ہے اور گواہی بھی مقبول ہے۔ جھوٹ نفاق کی علامت ہے کیونکہ منافق جھوٹا ہوتا ہے، نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے : "منافق کی تین علامتیں ہیں ؛ اول یہ کہ جب بات کرت تو جھوٹ بولے،دوم یہ کہ جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور سوم یہ کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو امانت میں خیانت کرے”۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ جناب رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی طرف سے چھ (six) باتوں کی ضمانت دو تو میں تم کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں :
۱) جب بولو تو سچی بات بولو
۲) جب امانت تمھارے پاس رکھی جائے تو اسے ادا کرو
۳) جب وعدہ کرو تو پورا کرو
۴) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو
۵) اپنی نگاہیں نیچی رکھو
۶) اور اپنے ہاتھوں کو دوسروں کو تکلیف پہونچانے سے روکو”۔
ﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے :
يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَكُوۡنُوۡا مَعَ الصّٰدِقِيۡنَ°
ترجمہ:
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کا ساتھ دو۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "سچائی کو لازم پکڑو، کیونکہ سچ نیکی کی راہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے، اور آدمی یکساں طور پر سچ کہتا ہے اور سچائی کی کوشش میں رہتا ہے یہاں تک کہ ﷲ کی نظر میں اس کا نام سچوں میں لکھ دیا جاتا ہے اور جھوٹ سے بچے رہو، اس لئے کہ جھوٹ گناہ اور فجور ہے اور فجور دوزخ کی راہ بتاتا ہے، اور آدمی مسلسل جھوٹ بولتا ہے اور اسی کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ ﷲ کے نزدیک اس کا شمار جھوٹوں میں لکھ دیا جاتا ہے”۔
سچ بولنے کی کیسی عظیم اہمیت ہے کہ انسان اپنی سچائی کے ذریعے جنت میں داخل ہوسکتا ہے، جو ہر انسان کی خواہش اور تمنّا ہے، جبکہ جھوٹ بولنے کی وجہ سے انسان کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں جلنا ہوگا، اگر موت سے قبل حقیقی توبہ نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ ہر انسان چاہتا ہے کہ وہ دوزخ سے بچ جائے۔نبی اکرم ﷺ نے جنت کے حصول اور جہنم سے نجات کے لئے بتایا کہ ﷲ تعالیٰ کے دیگر احکام کو بجا لاکر سچ بولنے کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔ لوگ عام طور پر کوئی فائدہ حاصل کرنے کے لیے یا کسی نقصان سے بچنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں، جھوٹ بولنے سے جو تھوڑی سی منفعت دنیا میں حاصل ہوتی ہے وہ آخرت میں بڑے خسارہ کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے، بہت سے کاروباری لوگ سامان بیچنے میں بلا تکلف جھوٹ بولتے ہیں، قیمت بتانے اور سامان کی کوالٹی بتانے میں جھوٹ بولتے ہیں، ایسے کاروباری لوگوں کو بظاہر جو بھی فائدہ ہو ﷲ کے نزدیک وہ گھاٹے کا سودا ہے۔ حضرت حکیم بن حزامؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: "فروخت کرنے والے اور خریدار کو اختیار ہے جب تک وہ مجلس سے جدا نہ ہوں۔ اگر دونوں نے حقیقت کو نہ چھپایا اور سچ بولا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جائے گی اور اگر حقیقت کو چھپایا اور جھوٹ بولا تو کاروبار کی برکت ختم کردی جائے گی”۔
لیکن اِن دنوں ہم نے تجارت کو خالص دنیاداری کا کام سمجھ لیا ہے، اس لئے ہمارا یہ ذہن بن گیا ہے کہ جھوٹ اور دھوکا دہی کے بغیر اب تجارت کامیاب نہیں ہوسکتی۔حالانکہ اگر تجارت اللہ کے خوف کے ساتھ کی جائے اور کسی کو دھوکا دینے کی غرض سے نہیں، بلکہ سچائی اور امانت داری کو اپنا معمول بناکر کی جائے اور ناجائز کاموں سے پرہیز کیا جائے تو یہی تجارت عبادت بنے گی اور حلال تجارت کے ذریعے حاصل شدہ رقم کو اپنے اور گھر والوں کے اوپر خرچ کرنے پر اجر عظیم ملے گا۔ اس کی وجہ سے ہمیں آخرت میں کامیابی حاصل ہوگی۔جیساکہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو تاجر سچا اور امانت دار ہو ،وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا”۔
رسول کریمﷺ نے عرب کے معاشرے میں سب سے پہلے جو بنیادی تعلیم لوگوں کو دی تھی اس میں سچائی بھی تھی۔ آپﷺ کی دعوت پر جو لوگ ایمان لائے، وہ عقیدہ کے پکے اور باتوں کے سچے تھے، وہ جان تو دے سکتے تھے مگر جھوٹ نہیں بول سکتے تھے، مومن کی شان یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے پاک رکھے۔ علامہ اقبال کہتے ہیں:
پاک رکھ اپنی زباں ، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا ، تیری صدا بے آبرو
سچ بولنے کا اعلٰی مرتبہ یہ ہے کہ انسان کو ایسے لوگوں کے سامنے اور ایسے موقع پر سچ بولنا پڑے جب کہ سچ بولنے کے نتیجہ میں تکلیف پہونچنے کا اندیشہ ہو پھر بھی سچ بولنے سے گریز نہیں کرے۔ نبی کریمﷺ کا فرمان ہے :”ظالم حکمراں کے سامنے سچ بات کہنا بہترین جہاد ہے”۔
جھوٹ بولنا اگر چہ بُرا ہے، مگر انسانوں کے بگڑتے ہوئے تعلقات کو درست کرنے کے لیے اگر کوئی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے تو ﷲ تعالیٰ اس سے مواخذہ نہیں کرے گا، کیونکہ انسانوں کے مابین فساد کا پیدا ہونا جھوٹ سے زیادہ نقصان دہ ہے اور اگر ان میں صلح کرائی جاسکتی ہو تو ضرور کرنی چاہیے یہ بڑی نیکی ہے اور معاشرہ کے امن و استحکام کے لیے ضروری ہے، اسی وجہ سے رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے:
وہ شخص جھوٹا نہیں ہے جو لوگوں کے درمیان صلح جوئی کرتا ہے اور بھلائی کے لیے چغلی کھاتا ہے یا بھلائی کی بات کہتا ہے”۔
یعنی یہ جھوٹ نہیں ہے بلکہ لوگوں کو سچائی کی راہ پر لگانے کا حیلہ اور تدبیر ہے، قرآن و سنت کی ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ صداقت و امانت ،راست گوئی اورسچائی کو اسلامی اخلاقیات میں کس قدر بلند مقام حاصل ہے۔ جب کہ اس کے برعکس عمل کرنے پر شدید وعید اور بُرے انجام سے ڈرایا گیا ہے۔
ﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہمیں سچ بولنے کی توفیق عطا فرما اور اس کے ثمرات سے مالا مال فرما، جھوٹ اور اس کے زہریلے اثرات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما۔(آمین، ثم آمین)
شیخ افلاق حسین
سیموہ ترال
9858163952
aflaqhussainsheikh@gmail.com