محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا قمری مہینہ ہے، اسی ماہ سے سال کی ابتدا ہوتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ہجری کلنڈر کی شروعات سب سے پہلے امیر المومنین حضرت عمر فاروق نے کی، 17ھ کو اپنے زمانہ خلافت میں حضرت عمر فاروق نے ہجری کلینڈر اختیار کیا، اس سے پہلے واقعات کا تعین رسول کریمﷺ کے سال ولادت سے کیا جاتا تھا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو حضرت عمر فاروق کی شہادت ہوئی اور آپ کو رسول کریمﷺ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ قرآن کریم میں بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کو خصوصی حرمت اور تقدس حاصل ہے، ان چار عظمت والے مہینوں میں سے بھی پہلا مہینہ محرم الحرام کا ہے۔
دسویں محرم الحرام کا دن اسلامی تاریخ میں یاد گار دن ہے، یہ دن دو ایسے عظیم واقعات کی یاد دلاتا ہے جو حق و باطل کی معرکہ آرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ پہلا واقعہ وہ ہے کہ جب فرعون کے ظلم و ستم اور جھوٹی خدائی کا سلسلہ عروج کو پہونچا، تو اللّه تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو فرعون کی اصلاح اور تنبیہ کے لیے اور بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و ستم سے نجات دلانے کے لیے مبعوث فرمایا۔ لیکن فرعون اپنی سرکشی سے باز نہ آیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ موسیٰ کو کامیابی ملی اور فرعون کو غرق کیا گیا۔ جس دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر سمیت غرقِ آب ہوا تھا، وہ عاشوراء کا دن تھا اور بنی اسرائیل اس دن کو یومِ نجات کی شکل میں منانے لگے اور اِس دن وہ روزہ رکھتے تھے۔ ”رسول اللّهﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ مدینہ کے یہودی یومِ عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، آپﷺ ان سے پوچھا کہ تم لوگ کیوں روزہ رکھتے ہو؟ انہوں بے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں رب العزت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا تھا۔ ہم ان کی تعظیم میں روزہ رکھتے ہیں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا : ہم موسیٰ علیہ السلام کے حق دار تم سے زیادہ ہیں اور پھر آپﷺ نے مسلمانوں کو یومِ عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا“۔
جس طرح یہودیوں میں یومِ عاشوراء کے روزہ کیا دستور تھا، اسی طرح جاہلیت کے زمانہ میں قریش میں روزہ رکھنے کی روایت تھی، مگر قریش کے روزہ رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا جاتا تھا۔ اس دن کا روزہ نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام علیھم اجمعین بھی رکھتے تھے، جب رمضان المبارک کا روزہ فرض ہوا تو آپﷺ نے مسلمانوں کو اختیار دیا کہ جو چاہے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ ”قریش کے لوگ دورِ جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے اور نبی محترمﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ پھر جب آپ مدینہ تشریف لے آئے تو تب بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے اور صحابہ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا آپﷺ نے حکم دے رکھا تھا۔ البتہ جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کی فرضیت ختم ہوگئی۔ لہٰذا اب جو چاہے یہ روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔“
نبی کریمﷺ نے دسویں محرم کے ساتھ نویں محرم کو بھی روزہ رکھنے کی خواہش کا اظہار کیا اور فرمایا کہ : ”اگر اگلے سال میں حیات رہا تو نویں محرم کا بھی روزہ رکھوں گا“ مگر ربّ العزّت نے اسی سال ان کو اُٹھا لیا۔ یومِ عاشوراء کا روزہ اگر چہ فرض نہیں ہے مگر اسلام میں اس کی اہمیت کم بھی نہیں ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ”ماہ رمضان کے روزہ کے بعد سب سے افضل محرم الحرام کے روزے ہیں اور فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز ، تہجد کی نماز ہے“۔
دسویں محرم کا دوسرا یاد گار واقعہ شہادت امام حسین ہے، یہ اسلامی تاریخ کا ایسا الم ناک حادثہ ہے کہ قیامت تک امت مسلمہ اس کا صدمہ سہتی رہے گی۔
ایک عالم دین فرماتے ہیں : ”دسویں محرم کا دن امام حسین کی شہادت کو اس طرح زندہ کر دیتا ہے کہ جیسے یہ مقدس لہو آج بھی تازہ اور گرم ہو، امام حسین کی شہادت کا جو لہو بہا ہے وہ مسلمانوں سے آنسووں کی شکل میں خراج عقیدت وصول کرتا ہے اور کرتا رہے گا“۔
لیکن ذرا سوچیے کہ امام حسین نے کس بات کے لیے جنگ کا فیصلہ کیا، کس چیز کے لیے جان دی اور کس مقصد کی خاطر شہادت نوش فرمایا؟ وہ مقصد یہ تھا کہ، خلافت اللّه کی امانت ہے، اسکا وراثت سے تعلق نہیں، اس کا تعلق استحقاق سے ہے نہ کہ باپ کے بعد بیٹا ولی عہد ہو کر منصبِ پر فائز ہو ، یہ قیصر و کسریٰ کا طریقہ تو ہوسکتا ہے ، نبی کریمﷺ کی سنت نہیں ہے۔ اور یہ بھی ذہن میں رکھئے کہ یہ تاریخی جملہ حضرت عبد الرحمٰن بن ابی ابوبکر کا ہے کہ جب مدینہ کے گورنر نے ولی عہدی کی بیعت لینی چاہی ہے تو انہوں نے بڑے غصے سے کہا کہ ”کیا اب تم رسول کریمﷺ اور خلفائے راشدین کی سنّت کے بجائے قیصر و کسریٰ کی سنت رائج کرنا چاہتے ہو کہ باپ کے بعد بیٹا جانشین ہو“۔ مسلمانوں کی خلافت کا حق دار وہ ہے جو مسلمانوں میں سب سے زیادہ صالح اور پرہیز گار ہے۔ اللّه تعالیٰ کا فرمان ہے :
” بے شک زمین کے وارث میرے نیک بندے ہوں گے“۔
امام حسین نے جس شخص کو خلافت کا مستحق نہیں سمجھا، اس کے خلاف خروج کیا۔ امام حسین کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کریں! اہل سنت اس معاملے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ پوری نیک نیتی سے آنجناب یہ سمجھتے تھے کہ اسلام کے شورائی اور جمہوری مزاج کو بدلا جا رہا ہے۔ حالات کے رخ کو اگر ہم نے تبدیل نہ کیا تو خالص اسلام جو حضرت محمدﷺ لے کر آئے تھے اور وہ کامل نظام جو حضورﷺ نے قائم فرمایا تھا، اس میں کجی کی بنیاد پڑ جائے گی، لہذا اسے ہر قیمت پر روکنا ضروری ہے۔ یہ رائے ان کی تھی اور پوری نیک نیتی سے تھی۔ اس رائے میں عبداللّه بن عباس بھی شریک تھے کہ ولی عہدی کی جو رسم پڑ گئی ہے وہ اسلام کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی لیکن وہ آگے جاکر اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا اختلاف کامیابی کے امکانات کے بارے میں تھا کیونکہ وہ کوفہ والوں کو قطعی ناقابل اعتبار سمجھتے تھے۔ مگر دوسری طرف امام حسین یہ رائے رکھتے تھے کہ اگر کوفہ کی عظیم اکثریت ان کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہے تو اس کے ذریعے اسلامی نظام میں لائی جا رہی تبدیلی کا ازالہ کیا جا سکتا ہے اور اس کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد امام حسین نے فیصلہ کیا مجھے جانا چاہیے اور آپ کا سفر جاری رہتا ہے حتیٰ کہ قافلہ دشتِ کربلا پہنچ گیا۔ ادھر کوفہ سے گورنر ابنِ زیاد کا لشکر آگیا، اور اس کا ایک حکم تھا کہ وہ امام حسین کے سامنے دو صورتیں پیش کرے کہ آپ نہ کوفہ کی طرف جا سکتے ہیں نہ مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کی طرف مراجعت کرسکتے ہیں، ان دونوں سمتوں کے علاوہ جدھر آپ جانا چاہتے ہیں، آپ کو اجازت ہے۔ لیکن امام حسین نے اسے اختیار نہ کیا بلکہ آپ وہیں ڈٹے رہے۔
اب امام حسین کی طرف سے تین صورتیں پیش ہوتی ہیں۔
1۔ مجھے مکہ مکرمہ واپس جانے دو
2۔ مجھے اسلامی سرحدوں کی طرف جانے دو
3۔ یا میرا راستہ چھوڑ دو (میں دمشق چلا جاؤں) میں یزید سے اپنا معاملہ خود طے کرلوں گا۔لیکن ابنِ زیاد نے اس کو رد کیا اور کہا کہ بیعت کیجئے۔
جب کوفہ والوں نے عہد شکنی کی، اس کے بعد ابنِ سعد مجبور ہوکر امان حسین کے سامنے دو شرطیں رکھتا ہے، یا تو غیر مشروط طور پر Surrender کیجئے ورنہ جنگ کیجئے۔ بہرحال امام حسین نے غیر مشروط طور پر Surrender کرنے سے انکار کر دیا اور مسلح تصادم ہو کر رہا، جس کے نتیجے میں سانحۂ کربلا واقع ہوا۔ اس کا جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام حسین اور آپ کے کئی ساتھی تلوار چلاتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد امام حسین کا سر بدن سے جدا کر دیا گیا اور ابنِ زیاد کے پاس لے گئے، اور اور ابنِ زیاد نے کسی کے ہاتھ یہ ”سر“ یزید کے سامنے رکھ دیا گیا۔ امام حسن نے ہمیں یہ سمجھایا کہ اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہو اور وہ اس حکومت کو غیر اسلامی طریقوں سے چلا رہیں ہوں، تو بحثیت مسلمان آپ کیا کریں۔ ایک عالم دین فرماتے ہیں :
اگر حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو اور غیر اسلامی طریقے سے چلائی جا رہی ہو تو مسلمانوں کو سخت الجھن پیش آتی ہے اور قوم مسلمان ہے، حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، مگر چلائی جا رہی ہے غیر اسلامی طریقے پر، تو اس حالت میں ایک مسلمان کیا کرے؟ اگر حضرت حسینؓ نمونہ پیش نہ کرتے تو کوئی صورت رہنمائی کی نہ تھی۔امام حسین نے ہمارے لیے ایک نمونہ پیش کیا کہ اگے حکومت مسلمانوں کے ہاتھ میں ہے، لیکن اسے غیر اسلامی طریقے سے چلایا جا رہا ہے تو اُس وقت بحثیت مسلمان آپ کیا کریں۔ بقول شاعر:
قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
اللّه تعالیٰ ہمیں اسلام پر قائم رہنے اور اس کے لیے قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا ربّ العلمین)
شیخ افلاق حسین
سیموہ ترال
9858163952
[email protected]