__________ میلے آم _________
تحریر: ضیاء درخشاں
گڑیا نے اپنی گلک دیکھی، لیکن نئی فصل کے آم خریدنے کے لئے ابھی بھی اس گلک میں پیسے کم تھے۔ نو سال کی عمر حالانکہ پیسوں کا حساب کتاب رکھنے کے لئے کافی کم ہوتی ہے، لیکن گڑیا اپنی عمر سے کچھ زیادہ ہی سمجھدار تھی۔ احساسِ فکر و ذمہ داری، اپنوں کے تئیں پیار، جیسی خوبیاں ہی اسے اور بچوں سے قدرِ منفرد بناتی ہے۔ ابا جی نے معمول کی طرح صبح صبح گڑیا اور اس کی بڑی بہن کو جیب خرچ دے دیا، جو ان کو اسکول آنے جانے کے لئے کرایا، اور دکان سے بسکٹ خریدنے کے کام آتا ہے۔ یہ خرچ ان کو ایسی پابندی سے دیا جاتا، جتنی پابندی سے بجلی کا بل ادا کرتے ہیں۔ مڈل کلاس گھروں میں ہر چیز کو قائدے اور ترتیب سے کرنا پڑتا ہے، اور ہر چیز میں حساب رکھنا پڑتا ہے۔۔ شاید یہی چیز گڑیا کے اندر بھی آچکی تھی۔ اپنا خرچا لے کر گڑیا سیدھے اپنے گلک کی طرف لپکی، اور آج کا خرچہ ادا کرکے گڑیا جب حساب کرنے لگی تو ابھی بھی کچھ پیسے کم تھے۔ دراصل کئی دن پہلے اس کے چھوٹے بھائی نے، جو صرف چار سال کا تھا، نے آم کھانے کی زد کی تھی، کیونکہ یہ موسم آم کا شروعاتی موسم ہوتا ہے، اور پہلی فصل بہت مہنگی ہوتی ہے، خاص کر جب فصل دور والی ریاستوں سے آتی ہو۔ اس کی امی اور ابو نے منے کو بہت سمجھایا کہ چند دن رک کر وہ اسکو آم خرید کر دلائے گے، لیکن جب منے کی زد پوری نہیں ہوتی تو وہ ایک دم سے مٹی پر لیٹ جاتا ہے، اور خود کو لت پت کر دیتا ہے۔ اس کے چہرے پر اسکے گنگرالی لاتے، آنسوں میں تر اسکے گول مٹول چہرے کو اور بھی حسن بنا دیتے، گڑیا اپنے بھائی سے بے حد پیار کرتی تھی، اور اس کی آنکھوں میں آنسوں اسے ہرگز منظور نہیں تھا۔۔ تبھی اس نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے جیب خرچ سے اس کے لئے آم خرید کر لائے گی، جس سن کر منا ایک دم سے اسے لپٹ گیا تھا۔ کبھی دھوپ میں سکول سے پیدل چل کر گھر آتی اور صبح دید سے سکول پہنچتی، پھر ماسٹر کی ڈانٹ ۔ قسمت اچھی نہ ہوئی تو پی ٹی ماسٹر کی مار پیٹ سے نازک سے ہاتھوں پر نشان پڑ جاتے۔ لیکن گڑیا یہ سب کچھ چپ چاپ سہہ لیتی۔۔ آخر اسے اپنے بھائی کے لئے اپنے جیب خرچ سے آم جو خریدنے تھے۔ بس اسے اس دن کا انتظار تھا جب وہ آم خرید کے اپنے بھائی کو کھلائے گی۔۔ جب سب بچے کھانا کھانے کے بعد کھیل کود میں حصہ لیتے ہیں، اور اپنے لئے چیزیں خریدتے تھے، گڑیا خاموشی سے کلاس میں بیٹھی رہتی اور اور دل ہی دل میں گلک کے پیسوں کا حساب لگاتی رہتی۔ شام کو جب اس کی بہن گھر چلنے کہتی وہ اسے جانے کو کہتی۔۔۔ بہن اسے کنجوس کہہ کر مذاق اڈا کے اپنی سہیلیوں کے ساتھ چلی جاتی، اور گڑیا اکیلی دھوپ میں چل کر گھر آتی۔ خیر، وہ دن آ ہی گئے جب گڑیا کے گلک میں اتنتے پیسے جمع ہوئے، کہ وہ اپنے بھائی کے لئے آم خرید سکیں۔ صبح سکول نکلنے سے پہلے اس نے گلک خالی کی اور بڑے سلیقے سے سارے پیسے اپنے ‘بیگ’ میں حفاظت کے ساتھ رکھیں۔ جاتے وقت اپنے بھائی کو پیار سے کہا کہ آج میرا منا آم کھائے گا، اور یہی کہتے ہوئے وہ سکول کی طرف روانہ ہوئی۔ آج گڑیا کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، وہ بس اس پل کو یاد کررہی تھی جب وہ اپنے جیب خرچ سے منے کو آم کھلائے گی۔ انہی خیالوں کے ساتھ وہ سکول پہنچی، اور دستور کے مطابق ماسٹر سے مار بھی کھا لی۔۔ لیکن آج اسے درد کا احساس نہیں تھا۔ سکول میں چھٹی ہوتے ہی وہ سیدھے گیٹ کے باہر میوے سے بھری دکان پر پہنچ گئی۔ بچے میوے والی کو پیار سے اما پکارتے تھے، گڑیا نے ہلکے سے مگر اعتماد کے ساتھ اما کو آواز دی اور اپنے ‘بیگ’ سے پیسے نکال کر اما کے حوالے کرتے ہوئے آم دینے کو کہا۔ اما نے اسے آم کی تھیلی تھما دی جسے لے کر وہ ایسے خوش ہوئی، جیسے کوئی خزانہ ملا ہو، کیونکہ گڑیا کے لئے سچ میں یہ آم خزانے سے کم نہیں تھے۔ تھیلی لے کر گڑیا پیدل گھر کی طرف چلنے لگی، اور آج اس کی بہن بھی اس کے ساتھ چل رہی تھی،، شاید اس کی کامیابی اور لگن سے متاثر ہوکر وہ اسکا ساتھ دینے کے لئے مجبور ہوگئی تھی۔ہمیشہ کی طرح وہ فوٹ پاتھ پر بنی ریلنگ کے ساتھ چل رہی تھی، اور اچانک اس کا پیر کسی پتھر سے ٹکرایا، جس کی وجہ اس کے ہاتھ سے آم گر کر ایک گندے نالے میں گر پڑے۔ گڑیا یہ سب دیکھ کر بہت رونے لگی اور نالے کے ایک طرف جاکر آم کے تھیلے کو دیکھتی رہی۔ اسی امید کے ساتھ کہ شاید وہاں سے کوئی گزرے اور اس کو آم کی تھیلی واپس نکال کر دے۔ بہن کے سمجھانے پر، کہ یہ آم اب کھانے کے لائق نہیں رہے، گڑیا اور بھی رونے لگی۔۔ اس کی بہن اس کو احمک کہہ کر چلی گئی۔ گڑیا روتے ہوئے آم کے تھیلے کو دیکھتی رہی جو کیچڑ میں لت پت تھا، جسمیں سارے آم میلے ہوگئے تھے، بلکل اتنے ہی میلے، جتنا زد کرتے وقت مٹی میں لت پت کرنے سے، اس کے بھائی کا چہرہ ہوتا تھا۔
مصنف جموں کے اخبار "آرائزنگ اسٹیٹ” کی بیورو چیف کشمیر ہیں