سرینگر/ 14 اکتوبر
12 اکتوبر کو ٹیگور ہال سرینگر میں جموں و کشمیر بینک کے اشتراک سے ادبی مرکز کمراز کی بیالیسویں کانفرنس منعقد ہوئی۔ تقریب میں جموں و کشمیر کے اطراف و اکناف سے آئے ہوے سینکڑوں ادیبوں ، قلمکاروں ، دانشوروں ، سیول سوسائٹی ممبران ، انتظامیہ کے ساتھ منسلک شخصیات ، طالب علموں ، تھیٹر اور دوسرے شعبوں سے وابستہ افراد نے شرکت کی۔
یہ کانفرنس اس نوعیت سے زبردست اہمیت کی حامل ہے کہ اس میں کشمیری زبان کو گوگل ٹرانسلیٹر میں شامل کرانے کے لئے ایک بڑے مشن کا آغاز کیا گیا۔ کانفرنس کا موضوع ” کاشُر گوگلچ زبان، اکھ ہدف” تھا ۔ اس موضوع کو مباحثے کے دوران مشہور صحافی اعجازالحق کی راے پر "یُس کرِ گوگُل ، سُے کرِ کراو” سے پورے ایوان نے یک سوئی کے ساتھ بدل دیا ۔
کانفرنس کی پہلی نشست کی صدارت پروفیسر شاد رمضان نے کی۔ جبکہ سابق سیکریٹری کلچرل اکیڈیمی ظفر اقبال منہاس، اسلامک یونیورسٹی اونتی پورہ کے پروفیسر ڈاکٹر جاوید گِیری، جنید مجتبیٰ خان، ادبی مرکز کمراز کے سرپرست ڈاکٹر رفیق مسعودی اور ادبی مرکز کمراز کے صدر محمد امین بٹ بھی ایوان میں موجود تھے۔ کانفرنس کا آغاز ادبی مرکز کمراز کے نائبِ صدر جاوید اقبال ماوری نے کلام شیخ العالم پیش کرکے کیا۔
پہلی نشست میں کشمیری زبان کو گوگل زبان بنانے پر سیر حاصل بحث ہوئی۔ بحث میں پہلے ڈاکٹر جاوید گیری اور جنید مجتبیٰ
نے اپنی اپنی تجاویز سامنے رکھی۔ ان تجاویز کو لیکر مختلف طبقہ ہاے زندگی سے وابستہ شخصیات نے اپنے اپنے خیالات پیش کئے۔ جن لوگوں نے اپنے خیالات پیش کئے اُن میں پروفیسرناصر مرزا، حسرت گڈھا، مشتاق تانترے، شیراز خاکی، شمشاد کرالہ واری، عبدالرحمان بٹ، جنید السلام ،شیخ غلام محمد طارق خاور، ہمایوں قیصر، علی شیدا، اعجاز الحق اور جاوید احمد وغیرہ نے شرکت کی۔ کانفرنس کے سبھی شرکاء نے کشمیری کو گوگل کی زبان بنانے کے لئے اپنے بھر پور اور کھلے تعاون کا یقین دلایا۔ اس نشست کے آغاز میں ڈاکٹر رفیق مسعودی نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ ادبی مرکز کمراز کے صدر محمد امین بٹ نے اپنے خطبے میں کہا کہ آج کی تقریب منعقد کرنے میں جموں و کشمیر بینک کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیربینک اب صرف ایک مالی ادارہ نہیں بلکہ یہاں کی مشترکہ قدروں اور زبانوں کا امین بھی بن رہا ہے۔ اس ادارے کا اثر جموں و کشمیر کی ہمہ جہت ترقی میں نمایاں ہے۔ اپنے خطبے میں مہمان خصوصی ظفر اقبال منہاس نے ادبی مرکز کمراز کو ایک تاریخ ساز ادارہ قرار دیتے ہوے کہا کہ کشمیری زبان و قوم کی بقاء کے لئے آج اس ادارہ نے ایک اور باب رقم کردیا۔ پروفیسر شاد رمضان نے اپنے صدارتی خطبے ادبی مرکز کمراز کو کشمیریوں اور کشمیری زبان کا بہت بڑا سہارا قرار دیا۔
کانفرنس کی دوسری نشست کی صدارت پروفیسر فاروق فیاض نے کی جبکہ کلسٹر یونیورسٹی کے وائس چانسلر اس نشست میں مہمانِ خصوصی رہے۔ ایوان میں محمد امین بٹ ، پروفیسر نسیم شفائی اور پروفیسر شاد رمضان بھی شامل رہے۔ اس نشست میں سب سے پہلے میں ادبی مرکز کمراز کی نئی ویب سائٹ لانچ کی گئی۔ اس کے پہلے پروفیسر نسیم شفائی کی کتاب "بہ ونِتھ زانہ کٙس” اور پھر پروفیسر شاد رمضان کی کتاب "شعر تہ شرح” رونمائی انجام دی گئی۔ نسیم شفائی کے شعری مجموعے پر شاہدہ شبنم اور ڈاکٹر شہنواز منتظر نے جبکہ پروفیسر شاد رمضان کی تصنیف پر نثار اعظم اور محمد شفیع راتھر نے مقالے پیش کئے۔
اپنے صدارتی خطبے میں پروفیسر فاروق فیاض نے ادبی مرکز کمراز کو ایک تاریخ ساز اور تمدن ساز ادارہ گردانتے ہوے کہا کہ اس ادارے کو خلوص اور اس کے ساتھ منسلک لوگوں کی لگن زندہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کا واحد ادارہ ہے جو بغیر کسی بعید بھاو کے کشمیری زبان و ادب کی خدمت کرتا ہے۔ اپنے اختتامی کلمات میں مہمانِ خصوصی پروفیسر قیوم حسین نے منفرد انداز میں ادبی مرکز کمراز کا شکریہ ادا کیا اور اُن کو نیا مشن شروع کرنے کے لئے مبارکباد بھی پیش کی۔ نشست کے آغاز میں گوگُل کو ای میل کرنے کی شروعات بھی کی گئی۔ تقریب کے آخر ادبی مرکز کمراز کے سنییر رکن شاکر شفیع نے تحریک شکرانہ پیش کیا۔ کانفرنس کی نظامت کے فرائض شبنم تلگامی نے انجام دئے