سید اعجاز
ترال//جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال کے متعدد علاقوں میں ان دنوں پینے کے صاف پانی کی قلت پائی جا رہی ہے جس کے پاعث عوام طرح طرح کی پریشانیوں سے دو چار ہے کچھ ایسے علاقے بھی پانی کی قلت کا سامنا کر رہے ہیں جہاں آج سے پہلے لوگوں کو معلوم ہی تھا کہ پانی قلت کیا ہوتی ہے ۔ترال کی بیشتر آبادی پہاڑی علاقوں یا گاﺅں میں آباد ہے نلوں کے ذریعے پانی پہنچانے کا سلسلہ قلیل مدت سے شروع کیاگیاجبکہ اکثر علاقوں میں چند سال پہلے تک لوگ قدرتی چشموں یا ندی نالوں کا پانی استعمال کرتے تھے لیکن وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ ہر شہر ،گاﺅں ،اور دیہات میں اانسان خود غرضی کی انتہا تک پہنچ گیا اور جہاں اور جس کے صحن یا مکان کے نذدیک کوئی چشمہ تک انہوں نے خود کو چلاک سمجھ کر اس آب حیات فراہم کرنے والے چشمے کا مُنہ بند کیا اور اس کے اُوپر بیت الخلا یا اور کوئی تعمیر کھڑا کر کے ہمیں اس اہم نعمت سے محروم کر دیا ۔
سر سری جائزے کے مطابق سب ضلع ترال میں ساڑے تین سو سے زیادہ چشمے موجود تھے جن میں چند ایک ترال کے مین بازار میں بھی واقع تھے لوگوں سے بات چیت کے دوران یہ بھی سامنے آئی کہ بس اسٹینڈ ترال کے بلکل قریب ”سرفہ ناگن “بھی شامل تھیں جہاں لوگوں کے مطابق ماہ رمضان جب گرمی کے دنوں میں ہوتا تھا تو لوگ افطاری کے لئے یہاں سے ہی ٹھنڈا پانی لاتے تھے لیکن اب اس چشمے کا نام و نشان تک نہیں ہے جبکہ وہ پانی دوسری جگہ سے نکل کرگندی نالے کے پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے ماہرین کا مانیں تو ترال میں اب چند ایک ہی چشمے موجود ہیں ۔یہ صرف ایک مثال تھی اس کے علاوہ متعدد ایسے چشمے ہیں جن کو صف ہستی سے مٹایا گیا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمت کی ہم نے قدر نہیں کی ہے اور اس کا جواب ہمارے سامنے ہے۔اس بات سے کوئی انکار نہیں ہے کہ مسلسل خشک سالی کی وجہ سے قحط جیسے صورتحال پیدا ہوئی لیکن جب ایک انسان کسی بھی چیز کی قدر نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ وہ چیز یا نعمت اس قوم سے چھین لیتا ہے ۔جن ندی اور نالوں کو صاف اور شفاف پانی دس سال پہلے تک لوگ پینے کے لئے استعمال کرتے تھے ان ندی اور نالوں کے کناروں پر لوگ اکثر مقامات لیٹرین تعمیر ہوئے جبکہ اکثر بستیوں میں خود غرض عناصر نے ان ہی نہروں میں گھر کی تمام غلاظت ان ہی نہروں،ندی نالوں میں ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے اب یہ پانی بھی مضر صحت بن گیا ۔
سرکار کی جانب سے ہر گھر نل سے جل بہتر قدم ہے خشک سالی کے دوران یہ سب ناکام رہتا ہیں جبکہ مقامی سطح پر چھوٹی چھوٹی بستیوں میں یہ نہرین اور چشمے لوگوں کو پانی ضروریات کو پورا کرنے میں اہم کردار نبھاتے تھے ۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ ہر علاقے میں موجود چشموں کی رضاکارانہ طور پر صفائی،حفاظت اور دیکھ ریکھ کا انتظام خود کریں جبکہ جہاں جہاں ان اہم آبی ذخائر پر ناجائز قبضے یا ختم کیا گیا ہے ان کی شان رفتہ بحال کرنے میں انتظامیہ کی مشینری کو متحرک ہونا وقت کی بڑی ضرورت ہے ورنہ اگلے 10سال میں ہمیں اسے خطرناک پانی کی فراہمی کا مسئلہ ہوگا ۔
شائد اتر جائے تیرے من میں میری بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔