غازی سہیل خان
سرینگر
یکم فروری ۲۰۲۲ء کو وادی کشمیر کے حول سرینگر میں ایک درد انگیز اور شرمناک واقعے میں ایک ۲۴ ؍ سالہ دوشیزہ کے چہرہ پر ایک دردندہ صفت نوجوان نے تیزاب چھڑک کر اُس کو زندگی کو عذاب بنا کے چھوڑ دیا ۔آپ یقین کریں وہ لمحہ درد ِ دل رکھنے والے انسانوں کے لئے انتہائی اذیت ناک ہوتا ہے جب خواتین پر تیزاب چھڑکنے جیسی درندگی کی خبریں پڑھینے اور دیکھنے کو ملتی ہیں ۔یہ تیزاب متاثرہ خواتین دنیا کی بد نصیب ترین خواتین بن جاتی ہیں جن کے ارمان ،خواہشیں اور حسین خواب پل بھر میں چکنا چور ہو جاتے ہیں ۔وہ لمحات ان متاثرہ خواتین کے لئے کتنے اذیت ناک اور دل و جاں کو تڑپا دینے والے ہوں گے جب وہ اپنے حسین چہروں کو آیئنے کے سامنے چند لمحوں میں جھلسا ہوا دیکھتی ہوں گی شاید ہی اس کا ادراک ہمیں ہو ۔
بھارت میں ۲۰۱۴ء سے ۲۰۱۸ء کے درمیان نیشنل کرائم ریکارڈ ز بیورو کے مطابق 1483؍ تیزات چھڑکنے کے واقعات درج ہوئے ہیں جن میں 85؍فی صد خواتین اور لڑکیاں شکار بنیں ہیں ۔۲۰۱۸ء میں 523؍کیس مقدمے کے لئے عدالت پہنچے اور اس میں افسوسناک بات یہ کہ ان میں سے محض 19؍ مجرموں کو سزا مل پائی ہے ۔اسی کے مطابق کشمیر میں گزشتہ سال شوپیاں میں ایک 19؍ سالہ دوشیزہ پر تیزاب چھڑکا گیا،تاہم ابھی تک وہ گناہگار قانون کی گرفت سے بچ کے اپنی زندگی عیش و عشرت سے گزار رہے ہوں گے ۔وہیں ۲۰۱۴ء میں سرینگر کے ایک لاء کالج میں 24؍ سالہ لڑکی کو اسی تیزاب کا نشانہ بنایا گیا۔اور ابھی تک یہ سارے گناہگار نشان عبرت نہیں بنایے گئے ہیں۔
بھارت کے ساتھ ساتھ وادی کشمیر میں اس طرح کے واقعات کیوں تیزی سے بڑھنے لگے ہیں اس کے متعلق ماہرین طرح طرح کی وجوہات بیان کرتے ہیں ۔سب سب اہم اور بُنیادی وجہ جو اس حوالے سے بیان کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جب بھی کوئی اس طرح کی درندگی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اُسے عبرتناک سزا نہیں ملتی بلکہ پہلے تو اکثر ان میں سے قانون کی ہی پکڑ میں نہیں آتے اور جو چند ایک آ جاتے ہیں اُن کے خلاف عدالتوں کے ذریعے سے نشان عبرت بنانے والی سزائیں نہیں سُنائی جاتی ۔دوسری وجہ جو بیان کی جاتی ہے کہ وہ اس طرح کے واقعات کے بعد جانب داری سے کام لیا جاتا ہے یعنی جس طرح سے عوام کی اور سے مذمت کی جانی چاہے تھی اُس طرح سے نہیں کی جاتی جس کی مثال ہمیں گزشتہ سال شوپیاں کی اُس بیٹی کی ملتی ہے جو کہ اسی تیزاب کا شکاربنا کے اُس کے چہرے کو بُری طرح جھلسا دیا گیا تھا ۔وہ بچی ابھی بھی انصاف کی منتظر ہے جو ایک غریب اور اپاہج باپ کی بیٹی ہے کے قصورواروں کو ابھی تک پکڑا نہیں گیاچند کا خیال یہ بھی ہے کہ اگر شوپیاں کی اُس بچی کو انصاف ملا ہوتا تو آج سرینگر کی یہ بہن اس دردندگی کا شکار ہونے سے بچ گئی ہوتی ۔ایک اور طبقے کا یہ کہنا ہے کہ معاشرے میں اس طرح کے درد ناک واقعات رونما اسی لئے ہوتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں اخلاقیات ،اور انسانیت کو تین طلاقیں دے دی گئی ہیں ۔جب کسی سماج میں دین و ایمان کا دن دہاڑے جنازہ نکالا جائے ،جب کسی ملک و قوم میں عدل و انصاف کو دفن کر دیا گیا ہو اور مجرمین عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہوں ،جب کسی قوم کے لوگ انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھانے پہ مجبور ہوں ،جہاں بے شرمی کو جدیدیت اور ترقی کا نام دیا گیا ہو ،جہاں تعلیم و تعلم کے نام پر ملت کے بچوں کے اذہان میں گندگی پھلائی جا رہی ہو ،جہاں اخلاقیات اور عزت و وقار کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا جا رہا ہو ،جہاں بے حیائی اور زنا کو فروغ دیا جا رہا ہو ،جہاں بے پردگی عام کی جا رہی ہو ،جہاں گھریلو نظام کا شیرزاہ بکھیر دیا گیاہو وہاں ہماری بہنوں اور بیٹیوں کو متا ثر ہونا ہی ہے ۔وہاں ان بچیوں کو اس قسم کی درندگی کا شکار ہونا کسی اچھمبے کی بات نہیں ۔
اس سارے منظر نامے کے بیچ کشمیر میں اس متاثرہ بچی کو انصاف دلانے کے لئے بغیر کسی مسلک و جماعت لوگوں نے انتظامیہ اور عدلیہ سے فریاد کی بلکہ اپنی ناراضگی کا بھی اظہار کیا۔چند سیاسی لیڈران نے تو اس بچی کے علاج کا سار ا خرچہ برداشت کرنے کا ذمہ بھی لیا ۔اپنے بیانات کے ذریعے اس دردندگی کی مذمت بھی کی۔وہیں کشمیر کے مفتیان کرام اور علماء حضرات نے بھی اس مجرم کو کڑی سے کڑی سزا کی پُر زور مانگ کی ۔بلکہ اُس کے اگلے روز شمع جلا کے اس بچی کے ساتھ ہمدردی اور اس کے خاندان کے دکھ میں شریک ہونے کا احساس دلایا ۔پولیس نے بھی چند گھنٹوں میں اولین فرصت میں معمول سے ہٹ کے اس واقعے کے اصلی مجرم کو پکڑ ا اور اگلے روز دو اور ملزمان کو گرفتار کیا گیا ۔ پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے میں پولیس اسٹیشن نوہٹہ میں مختلف دفعات کے تحت کیس دردج کیے گیے ہیں اور تحقیقات شروع کی گئی ہے ۔تاہم اسی دوران ایک سماجی کارکن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس لڑکی کو پہلے سے ہی اس لڑکے نے تیزاب چھڑکنے کی دھمکی دی تھی بلکہ اس بچی کے ساتھ منگنی ٹوٹنے کے بعد راستے میں تنگ بھی کرتا تھا جس کو اس کے گھر والوں نے سنجیدگی سے لیتے ہوئے پولیس تھانہ میں شکایت بھی درج کروائی تھی لیکن پولیس نے اُس پر کوئی کارروائی کیوں نہیں کی وہ ابھی واضح نہیں ہوا ہے ایک سماجی کارکن کہنا تھا کہ اگر پولیس نے پہلے ہی اس شکایت کو سنجیدگی سے لیا ہوتا ،کم از کم اُس مجرم کو تھانے بُلایا ہی ہوتا وہاں نصیحت ہی کی ہوتی شاید یہ بچی آج اس وحشت کا شکار نہ ہوتی ۔اس سارے منظر نامے کو مقامی و قومی میڈیا بھی اچھی کوریج دے رہا تھا تاہم چند سماجی کارکن بنے اپنی سیاست بھی چمکا رہے رہیں اور چند نام نہاد feministsاس واقعے کے بعد عورتوں کے حقوق کے نام پر اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال رہی ہیں ۔اسی طرح کی ایک نام نہاد نسوانیت پسند لڑکی نے مذکورہ متاثرہ بچی کے ساتھ پیش کیے گئے حادثے کے تناظر میں ایک افسوسناک بنان میڈیا کو دیتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکی یہ حق رکھتی ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنا boy friend بھی رکھ سکتی ہے ۔اس بیان کے بعد سماجی رابطہ کی ویب سائٹس پر موصوفہ کے خلاف شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا جس کے بعد مجبوراً سے اپنا بیان واپس لے کے عوام سے معافی مانگنی پڑی تھی۔اس طرح کے واقعات کے بعد اکثر سماج کو بانٹنے کے عناصر پنپتے ہیں اور چندخواتین کے حقوق کے نام پر بھی اسلامی قوانین کی مخالفت اور سماجی تانے بانے کو بکھیرنے کی ناکام کوشش بھی کرتے ہیں۔تاہم ہمیں اس دوران بہت ہی بیدار رہنے کی ضرورت ہے کہ کوئی ہماری اجتماعیت اور گھریلو نظام کو مغربی تہذیب کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش
نہ کرے ۔بائیں ہم اس حادثے کے بعد وادی کشمیر درد و غم میں ڈوب گئی ہے ۔چہار جانب بے چینی ،مایوسی اور ہماری بہنیں اور بیٹیا ںعدم تحفظ کا شکار ہو گئی ہیں اور اس دوران ان بچیوں کی نفسیات پر کیا اثرات پڑتے ہوں گے اللہ رحم فرمائے ۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے سماج میں اخلاقی تعلیم کو عام کریں ،ہمارے علماء کو چاہیے وہ محلوں میں درسگاہوں کے ذریعے عوام میں بیداری پھلائیں ،اسلام کی تعلیمات کو عام کریں۔ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک منظم پروگرام کے تحت طلبہ کو اسلامی تعلیمات اور مقصد زندگی سے آشنا کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ حکومتوں کو بھی چاہیے کہ جب اس طرح کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے اصل مجرموں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں تاکہ دیگر لوگ بھی سبق حاصل کر کے کوئی اس طرح کی درندگی کا سوچ بھی نہ سکیں۔اگر آج بھی ہم اجتماعی طور بیدار نہ ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جب ہمارے گھر بھی اس طرح کی حیوانیت سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے ۔اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرماے۔۔۔۔۔۔ آمین