سبزار احمد بٹ
اویل نورآباد
اس بات میں کوئی دوراے نہیں کہ باپردہ خواتین نہ صرف مسلم معاشرے کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے ایک بہترین سرمایہ ہیں۔عورت کے لفظی معنی ہیں ہی چھپانے والی شئے یا چھپنے کی چیز۔۔باپردہ عورتیں نہ صرف بہترین اور صالح معاشرہ تشکیل دینے میں انتہائی اہم کردار نبھاتی ہیں۔ بلکہ باپردہ اور صالح عورتیں نسلوں کی پرورش کرتی ہیں آج کل معاشرے میں جو بے حیائی کا دور دورہ چل رہا ہے اس کے لیے جہاں مردوں کی ذہنیت کو ذمہداد ٹھہرایا جارہا رہے وہاں عورتوں کا بے پردہ اور بے ہودہ لباس کا استعمال بھی ذمہ دار ہے۔اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں اپنے ماننے والے کے لیے ایک ایک بات روزِ روشن کی طرح عیاں کی گی ہے۔ایک انسان کے لیے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، معاشرتی زندگی کے اصول، اور پہننے کے لیے بھی باضابطہ اصول متعین کئے گئے ہیں غرض زندگی کا کوئی بھی ایسا شعبہ نہیں ہے جہاں اسلام نے واضح طور پر رہنمائی نہ کی ہو۔ ایک مسلمان کو ہر معاملے میں اپنی مرضی کو چھوڑ کر اللہ کی مرضی اور اللہ کا حکم لاگو کرنا چاہیے اسی میں ہم سب کی کامیابی ہے۔ہمارا جسم اللہ کا دیا ہوا جسم ہے اس پر اللہ کی مرضی کا ہی پہناوا بھی ہونا چاہئے۔آج کل عورتیں پردہ کرنے سے کتراتی ہیں، نیم عریانی کی حالت میں گھومنے پھرنے کو ترقی کا نام دیا جارہا ہے جو نہایت ہی افسوس اور انتہائی کم عقلی کی بات ہے اگر انسان کے جسم سے کپڑے اتر جائیں گے تو پھر اس میں اور کسی وحشی جانور میں کیا فرق رہ جائے گا۔غور طلب ہے کہ انسان جب اس دینا میں آتا ہے تو اسے سب سے پہلے کیا پیش کیا جاتا ہے کھانا نہیں دیا جاتا ہے، علم کے لیے نہیں کہا جاتا ہے۔بچہ چاہیے کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کا ہو اسے سب سے پہلے لباس پیش کیا جاتا ہے تاکہ اس کا ننگا تن ڈاپھا جائے کیونکہ عریاں جسم شرمندگی کا احساس دلاتا ہے لیکن افسوس یہی انسان جب بڑا ہوجاتا ہے تو یہ اس لباس اور اس پردے کی مخالفت میں اتر آتا ہے ہے بظاہر یہ خود کو پڑھا لکھا اور ترقی یافتہ سمجھتا ہے لیکن لباس کی مخالفت سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ ہی یہ انسان پڑھا لکھا ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس نے ترقی کی ہے۔بلکہ یہ انسان ذہنی طور پر کمزور ہوچکا ہے۔اور اس انسان میں جانوروں کی سی خصلت پیدا ہوتی جا رہی ہے جس طرح سے جانور گھومتے پھرتے ہیں اور انہیں لباس کی حاجت نہیں پڑتی انسان بھی ان ہی جانوروں کی طرح زندگی گزارنا چاہتا ہے آج کا یہ انسان نیم عریانی کی حالت میں گھومنے پھرنے کو آزادی کا نام دے رہا ہے اور پردے کو گھٹن کا نام دے رہا ہے افسوس ایسی کمزور سوچ پر صد افسوس۔اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عورتیں جب نیم عریانی کی حالت میں چلتی ہیں تو انہیں دیکھ کر مردوں میں شہوت کا عنصر ابھر آتا ہے اسی لیے اسلام نے مردوں کو اپنی نظرین جھکا کر چلنے کا حکم دیا ہے یہ دور اندیشی نہیں تو اور کیا ہے اگر مرد وزن اسلام کے ان اصولوں کی پاسداری کریں گی تو یقینی طور پر ایک بہتری معاشرے کی تشکیل ممکن ہے جہاں ہماری مائیں بہنیں ،بچیان بلکہ تمام تر خواتین اپنے آپ کو محفوظ محسوس کر سکتی ہیں۔لیکن کیا کریں کچھ لوگوں نے اپنی آنکھوں پر حسد، نفرت اور تعصب کی عینک چڑھا کر رکھی ہیں انہیں اسلامی اصولوں اور قوانین میں یہ اچھائیوں اور دور اندیشیاں نظر ہی نہیں اتی ہیں۔نہ ہی انہیں اپنی ماؤں بہنوں کی پروا ہے اور نہ ہی دوسروں کی۔ اسلام کے تمام تر اصول نہ صرف فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہیں بلکہ بشری تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ اور یہ اصول اور قوان?ن کہیں پر بھی فطرت سے نہیں ٹکراتے ہیں اسلام میں پردے کی اہمیت کو واضح طور پر اجاگر کیا ہے
۔ قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے سورہ نور آیت نمبر 30مسلمان مردوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔اس آیت کریمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پردہ صرف عورتوں کے لیے نہیں یے بلکہ اسلام میں مرد کو بھی اپنی حدود و قیود میں رہنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور لازم قرار دیا ہے کہ مرد بھی خواتین کی عزت و احترام کا خیال رکھتے ہوئے اپنی نظریں جھکائے رکھیں تا کہ گناہوں سے بچ سکیں۔
قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر پردے کا حکم آیا ہے۔ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 33 میں اور ایک اور جگہ آیت نمبر 59 میں’’ عورت کو سر سے پاؤں تک پردہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔ عورت کو مستورات بھی کہا جاتا ہے’’ مستور‘‘کے مطلب چھپا ہوا یا پنہاں ہیں یعنی عورت چھپانے کے لیے ہے نمائش کے لئے نہیں۔،پردے کے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ’’ عورت پردہ میں رہنے کی چیز ہے ‘‘کیونکہ جب وہ باہر نکلتی ہے تو شیطان اسے تلاش کرتا ہے۔ حوالہ ترمذی شریف جلد نمبر 1 حدیث نمبر 1181
اسلام شرم وحیا کی پاسداری کرنے والا دین ہے۔ پیارے نبیؐ نے فرمایا
’’ حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر دین کی ایک خصوصیت ہوتی ہے اور اسلام میں خصوصیت ’’حیا‘‘ ہے
حضرت عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ عورت کا کمرہ میں نماز پڑھنا گھر (آنگن) میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور (اندرونی) کوٹھڑی میں نماز پڑھنا کمرہ میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے‘‘ سنن ابو دائود، جلد نمبر اول، حدیث نمبر 567۔ یعنی عورت جس قدر بھی پردہ کرے گی اسی قدر بہتر ہے،ہمارے ملک کے آئین نے ہمیں مذہبی آزادی دی ہے۔اور آئین کے مطابق ہم اپنے مذہبی اصولوں پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے کچھ مسلمان عورتیں بھی پردے سے کتراتی ہیں جسے مغرب پرستی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اور یہ مغرب پرستی اس قدر غالب ہوتی جارہی ہے کہ چند مسلمان بھی مسلم اصولوں خاص کر پردے کی مخالفت میں اتر آتے ہیں۔جس سے ہمارا معاشرہ روزب بہ روز بگڑتا جارہا ہے
آجکل جو آئے روز عصمت دری کے معاملات سامنے اتے ہیں ان تمام تر معاملات کی وجہ کہیں نہ کہیں عورتوں کی بے ہردگی ہے۔چست لباس پہننا اور نیم عریانی کی حالت میں گھومنا ان جیسے معاملات کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔حال ہی میں ملک کی ایک ریاست کرناٹکہ میں اسکولوں میں حجاب پہنے پر پابندی کا حکمنامہ جاری کر دیا گیا ہیاور جہاں ایک بہادر بچی مکمل پردے میں اپنے کالج میں داخل ہوئی جسے چند لڑکوں نے ٍڈرانے اور روکنے کی کوشش کی کچھ لوگ اپنی عورتوں کو پردے کی ترغیب دینے کے بجائے ان بچیوں کو بھی پردہ کرنے سے روکتے کی کوشش کر رہے ہیں یہ جو پردے کی اہمیت کو سمجھتی ہیں اور پردے میں رہ کر تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں ان واقعات کو بدقسمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔اس واقعہ سے تمام تر مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ ملک کے اکثر لوگوں نے بلا امتیاز مذہب و ملت اس معاملے کو بدقسمتی سے تعبیر کیا۔اور ایسے حکمناموں کو نہ صرف مذہبی معاملات بلکہ ذاتی معاملات میں بھی مداخلت سے تعبیر کیا۔معاملہ اب چونکہ عدالت میں ہے جہاں سے بہتر سے بہتر فیصلہ آنے کی توقع ہے. اس نازک موقع پر ملک میں امن و سکون بنائے رکھنا ملک کے ہر فرد کہ اخلاقی ذمّہ داری بنتی ہے۔اس معاملے میں ملک کی چند میڈیا چنلوں نے بھی آگ میں گی ڈالنے کا کام کیا ہے۔ایک میڈیا اینکر کا یہ کہنا کہ پردے سے ان عورتوں کا دم گھٹ رہا ہے اور ہم ان کو بچانا چاہتے ہیں لیکن افسوس ایسے لوگوں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی ہے کہ عورتیں سڑکوں پر اس لیے نہیں ہیں کہ پردے میں ان کا دم گھٹ رہا ہے بلکہ یہ سب عورتیں اس لیے سراپا احتجاج ہیں کہ پردہ ان کی زینت اور شان ہے لہزا انہیی پردہ کرنے دیا جانا چاہئے اور ان سے یہ حق نہیں چھینا جانا چاہئے۔کیونکہ پردہ اور حجاب مسلم خواتین کا وقار ،آن بان اور شان ہونے کے ساتھ ساتھ وہ قلعہ ہیں جہاں یہ خواتین خود کو محفوظ محسوس کر رہی ہیں۔مسلمان خواتین کو چاہئے کہ وہ خود بھی پردے کا اہتمام کریں اور آنے والی نسل کو بھی پردے کی ترغیب دیں تاکہ پر امن، محفوظ اور ایک بہترین معاشرے کی تشکیل ممکن ہو۔