عرفان بشیر
آڑی جن شوپیان
آللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کرکے اسے اپنے نایب کے بطور دنیا میں بھیج دیا۔یہ انسان ہی ہے کہ جسے دیگر ساری مخلوقات پربرتری حاصل ہے انسان بول سکتا ہیے،سمجھ سکتا ہیے اور دوسروں تک اپنی بات،اپنے جزبات اور اپنے احساسات کو پہنچا سکتا ہیے۔انسان انسانیت ،اخوت،ہمدردی،محبت اور صلہ رحمی کا نام ہے۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے قروبیاں
دنیا میں آکر انسان کو انسانیت کے دائرے میں رہ کر ہی زندگی گذارنے کا درس دیا جاچکا ہیے اور وہ اس کے لیے پابند تھا اور آگر کہیں غیر انسانی فعل وقوعہ پزیر ہوا کرتا تھا اسے درندہ اور وحشی جانور ہی انجام دیتے تھے اور پھر انسان ان درندوں کو ماڈالنے یا انہیں ختم کرنے تک چین سے نہیں بیٹھتا تھا۔
آگر ہم اپنا رخ تھوڑا ماضی کی طرف کرینگے تو ہمیں صاف دکھائی دیگا کہ کل تک انسانیت زندہ و جاوید تھی،انسان انسان کے لئے جان دینے کے لئے تیار تھا،رشتہ دار رشتہ دار کو دیکھنے کے لیے ترستا تھا،غمزدوں،مصیبت کے ماروں اور پریشان حال لوگوں کو اپنے اردگرد ایک دنیا دکھتی تھی اور انہیں ایک امید نظر آتی تھی اور فورا” سمبھل جاتے تھے۔
ہمارے اسلاف پانی کے ذخائر مثلآ دریا،چشمے،کنویں،جھیل ،تالاب اور جھرنوں کو قدرت کا خزانہ اور نعمت سمجھ کر انکی حفاظت کرتے تھے۔انہیں صاف و شفاف رکھنے میں اپنا قیمتی وقت صرف کرتے تھے۔اور اپنے انے والے نسلوں کو بھی انکی دیکھ ریکھ اور صفائی رکھنے کا درس دے رہے تھے۔
یہ لوگ بہت ہی سادہ لوح مگر دل کے سچے تھے۔انکا ہر ادا باعث فخر اور باعثِ تقلید تھا یہ لوگ زندگی کو قیمتی سمجھتے تھے گر چہ ان کے پاس مالی وسائل بہت محدود تھے لیکن یہ لوگ قدرتی وسائل کی حفاظت کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور تبھی جاکر یہ لوگ زندگی میں کامیاب و کامران رہیے۔
"زھییہ پہارہ منز تہ بسنچ یس برانتھ از تہ قائم۔
نے تس چھ حارتھے ذانہہ نے چھس زوال ووننم (عرفان)
زمانہ دن بدن گزرتا گیا نت نئے تجربے اور تحقیق عمل میں لائے گئے انسان نے جدید دور میں قدم رکھ کر جدید ٹیکنالوجی کا بھر پور فایدہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور ہر ایک سہولیت سے فائدہ اٹھانے کے لئے تگ و دو کی۔یہ ایک خوش آئند بات ہے اور ایسا کرنا ایک لازمی امر تھا۔کیونکہ ایک جدید دور کا انسان کیونکر قدیم زمانے کی طرح زندگی گزارکر اپنے لیے مصیبت مول لیتا۔
جس طرح ایک غریب باپ ساری عمر میں محنت و مشقت کرکے اپنے بچوں کے لئے سامان آسائش پیدا کررہا ہے اور اپنے بچوں کو ہر حال میں خوش رکھنا چاہتا ہے گو اسکا قطعی طور یہ معنی نہیں ہیے کہ اسکے وفات کے بعد اسکے بچے محض اس وجہ سے بھول جائنگے کہ وہ جیتے جی غریب،لاچار اور مفلوک الحال رہا ہیے اور اب اسکے بچے بڑھے اور امیر ہوگے ہیں اور اب انہیں اپنے باپ کی زندگی کی پامالیاں اور بے بسیاں یاد آکر شرم محسوس ہوتی ہے آگر اس سوال کا جواب ہاں میں دیا جائے تو دنیا کا کوئی بھی ذی شعور انسان ان بچوں کو حلال خور نہیں سمجھ سکتا ہیے اور نہ انہیں زمانہ کبھی معاف کرسکتا ہیے۔۔۔۔۔
یہی مثال اس سماج کی ہے جس میں ہم اور آپ رہ رہیے ہیں۔یہ زمانہ ترقی پزیر زمانہ ہیے اس میں ماضی کی یاد دلانے والوں کو بے بس،بیکس اور فرسودہ ذہن سمجھا جارہا ہے۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
اس بات میں ذرا بھر بھی شک نہیں ہے کہ گئے گزرے زمانے یا دور کے لوگ ہمارے اپنے تھے۔وہ ہمارے رشتہ دار،دوست احباب تھے اور ہماری میراث کے رکھوالے تھے آج ہم جو کچھ بھی ہیں انہیں کے بدولت ہیں اور جو زمین و جائیداد،مال و متاع دریا،چشمے تالاب کوہسار اور جھرنے انکی نظروں سے گزرے اور وہ اسے اپنا اثاثہ سمجھتے تھے ہمیں یہ سب وراثت میں ملا ہیے لیکن ہم بھی کیسے وارث ہیں کہ آنا” فانا” بدل گئے اور اس میراث کو بے قیمت بے معنیٰ اور بے سود سمجھکر اسے تہس نہس کردیا اور جسقدر گھریلو جائداد ہمارے اسلافوں نے ہمارے لئے باعث آسائش رکھا تھا اسی کے ساتھ لپٹ گئے اور جو میراث ہماری ساری زندگی کو خوشحال بنا دیتا اور انسانیت کے لیے باعثِ فخر مانا جاتا اس کو تباہ ؤ برباد کر دیا اور ایسا کرنے سے ہی ہماری ذہنوں کو سکون ملا جوکہ ہماری خود کی بربادی اور تباہی کا سامان ہیے۔۔۔۔۔۔شائد کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات…
جس طرف بھی نظر دوڑائیںگے تباہی و بربادی کے سوا کچھ نظر نہیں ارہا ہیے۔ہمارے دریا،جھیل اور چشمے بے بسی اور بے کسی کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ایک دن آب حیات اور آب رحمت کہلانے والے یہ دریا،چشمے اور جھیل اب بدبو اور گندگی کے ڈھیروں کے ٹھکانوں کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
ایک زمانے میں سر سبز و شاداب جنگل آج بنجر اور ویران کیفیت بیان کر رہے ہیں۔شہروگام کے بیچوں بیچ بہنی والی ندیوں کا شفاء بخشنے والا پانی اب مختلف بیماریوں کو جنم دیکر باعث پریشانی ہیے۔ندی نالوں پر گھریلو فضلاء اور بے ہنگم تعمیراتی روش نے تو اب انسانی زندگی کو پر خطر ہی بنادیا ہے۔مافیائی سرگنہ نے ندی نالوں سے ریت اور باجری نکالکر انکی سینکڑوں سال پرانی ہیت ہی کو بدل کر بے سرو سامانی کو جنم دیا ہے۔کوہساروں اور پہاڑوں سے غیر قانونی طور مٹی نکالکر انکی شان و شوکت کو اتنا زخ پہنچایا گیا ہیے کہ جیسے انکا وجود ہی نہیں تھا۔
سڑکوں،کوچوں،گلیوں اور چوراہوں کی تنگ دامنی نے اب اڑتے پرندوں کو بھی یہ کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ۔۔۔
اندرہ کٹھین منز کئتجن اولاہ آساں اوس
سئزناہ کانہہ ذرہ ناویاہ از دیوارس منز
غرض دور جدید کے انسان نے وہ کونسا غیر قانونی فعل انجام نہیں دیا ہے جس کی بنیاد پر کہا جائے کہ ابھی انسانیت زندہ ہے۔ہر طرف ویرانی اور پریشانی کا منظر ہیے۔اتنا کچھ کرنے کے باوجود بھی ہم اپنے اپکو جدید دور کا انسان کہہ کر اپنا بڑے پن کا مظاہرہ کررہے ہیں اور اپنے اسلاف کی دین کو بھول کر اپنے آپ کو بالا و برتر سمجھتے ہیں اور دوسری طرف اپنی آنی والی نسلوں کے لئے پریشانیوں اور مصیبتوں کے سامان پیدا کر رہے ہیں
اور اس کے لیے ہم کسی اور ذمہ دار نہیں گردان سکتے ہیں بلکہ ہم سب اس تباہی و بر بادی کے ذمہ دار ہیں۔۔۔
از تہ چھہ لوکھ بسان شائد یتھ شہرس منز
از تہ آوری کالہ پگاہ تم کارس منز