کسی بھی علا قے کی اقتصادی اور معاشی خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ اس علا قہ میں رسل و رسائل کے بہتر سے بہتر ذرائع اور وسائل لوگوں کو دستیا ب ہو ں۔رسل و رسائل کے ذرائع اور وسائل میں بہتر ی سے نہ صرف سر کا ری مشینر ی بلکہ عام لوگوں کو بھی نقل و حمل میں آسانیاں ہو تی ہیں اور نتیجہ کے طور پر اس خطے یا علا قے میں معاشی سرگر میاں پروان چڑ ھنے لگتی ہیں تاہم ہما رے ہاں گنگا اس حوالے سے بھی اْلٹا بہہ رہی ہے۔وادی کے مختلف علاقوں میں گزشتہ کئی مہینوں سے مسافر ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کا رونا رورہے ہیں جس کی وجہ سے ملازم پیشہ افراد، تجار، مریضوں اور زندگی کے دیگر شعبہ جا ت سے تعلق رکھنے والی آبادی کو نقل و حرکت کرنے میں گوناگوں مشکلات پیش آرہی ہیں۔ شہر کے جنوبی حصوں جن میں باغ مہتاب، کرالہ پورہ، نوگام، نٹی پورہ، چھانہ پورہ، راولپورہ، صنعت نگر، حیدرپورہ، پیرباغ وغیرہ علاقے شامل ہیں میں پہلے سے ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید قلت پائی جارہی تھی تاہم گزشتہ چند مہینوں سے ان علاقوں میں رہائش پذیر آبادی انتہائی تکلیف دہ حالات کا سامنا کررہی ہیں۔ نومبر سے لے کر ما رچ کے اواخر تک شام ہو نے سے قبل ہی ان علا قوں کی سڑکیں پبلک ٹرانسپورٹ کی آواجا ئی کے حوالے سے سنسان ہو جا تی ہیں جس کے نتیجہ میں عام لوگون کو مسائل کا سامنا کر نا پڑ تا ہے۔ اگر چہ متعلقہ آبادی نے کئی مرتبہ حکام بالا تک معاملہ کو پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کی تاہم روایات کو برقرار رکھتے ہوئے حکومتی اداروں نے عوام کی اْن اپیلوں کو درخور اعتنا سمجھ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کردیا۔ یہاں نہ صرف دن میں پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت کی شکایات رہتی ہیں بلکہ صبح و شام کے نازک اوقات میں بھی مسافروں کو کافی سارے پاپڑ بھیلنے پڑتے ہیں۔شہر کے متعدد علاقوں میں سہ پہر کے بعد ہی پبلک ٹرانسپورٹ کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔ شہر سرینگر کے لعل چوک اور ملحقہ علاقوں میں سہ پہر کے بعد ہی ایسے متعدد مناظر دیکھے جاسکتے ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ محکمہ آر ٹی اْو مسافروں کی شکایات کا ازالہ کرنے میں کتنی کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔شہر کے مختلف علاقوں میں قائم سرکاری دفاتروں کا رْخ کرنیوالے ملازمین، دوکاندار، طلبا اور ہسپتالوں تک علاج و معالجہ کی غرض سے جانیوالے مریضوں اور اْن کے ہمراہ تیمارداروں کو بھی روزانہ کی بنیادوں پر متعلقہ مقامات تک پہنچنے اور بعد میں گھروں تک واپسی کیلئے کافی سارے پاپڑ بھیلنے پڑرہے ہیں جس پر محکمہ ریجنل ٹرانسپورٹ آفس صوبہ کشمیر غیر سنجیدہ دکھائی دے رہا ہے۔ آئے روز ذرائع ابلاغ کی وساطت سے شہر کے کئی علاقوں سے ایسی شکایات مسلسل موصول ہورہی ہیں جہاں منی گاڑیاں، سومو اور دیگر نوعیت کے پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کی شکایات برابرجارہی ہے۔اگر شہر کے قلب لعل چوک کی بات کی جائے تو اس میں کسی انکار کی گنجائش موجود نہیں ہے کہ یہاں بھی سہ پہر کے بعد پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کی مسلسل شکایات آرہی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کو یک طرف کرتے ہوئے ہر ذی حس انسان یہاں اپنی آنکھوں سے صورتحال کا مشاہدہ بہ آسانی کیساتھ کرسکتا ہے۔ شہر کے اہم اور حساس مقامات بشمول جہانگیر چوک، ایم اے رور، ریذیڈنسی روڑ، بتہ مالو، اقبال پارک، ٹائیگور ہال سمیت ایسے کئی جگہیں ہیں جہاں لوگ شام دیر تک گاڑیوں کے انتظار میں رہتے ہیں۔ خال ہی یہاں ایک عدد گاڑی نمودار ہونے کی صورت میں مسافروں کا گاڑیوں کی جانب چلو کی صورتحال ظاہر ہوجاتی ہے اور یوں مسافروں کا کافی سارا وقت سڑکوں پر ہی گاڑی کے انتظار میں کٹ جاتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ حکام بالاکو مسافروں کی سہولیات کیلئے وافر مقدار میں گاڑیاں دستیاب رکھنی چاہیے تھی تاہم ایسا بالکل بھی نہیں ہے کیوں کہ وہ خوددفتروں اور دیگر مقامات تک پہنچنے کیلئے سرکاری گاڑیوں میں ہی تشریف لے جاتے ہیں لہٰذا ایسا محسوس ہورہا ہے کہ انہیں عوام الناس کی کم ہی فکر لاحق ہے، اسی لئے تو کافی سارا عرصہ گزرنے کے بعد بھی عوامی شکایات کا ازالہ نہیں ہوسکا ہے۔محکمہ آر ٹی اْو کشمیرکو وقت ضائع کئے بغیر ایسے اقدامات اْٹھانے چاہیے جس کی وجہ سے مسافروں کا بہت سارا وقت سڑکوں پر ضائع ہوجانے سے بچ جائے اور انہیں وقت پر ہی اپنی منزلوں تک پہنچنے کیلئے گاڑیاں دستیاب ہوں۔