ایک فلاحی ریاست کا تصور ہی اس بات پر مبنی ہو تا ہے کہ یہاں عام لوگوں خاص طور سے انہیں جو مالی اعتبا ر سے پسماندہ ہو تے ہیں ،زندگی کی تمام تربنیا دی سہولیتیں آسانی سے دستیا ب ہوں اور جن ضرورتوں کے پورا کر نے میں انہیں کسی بھی طرح کی مشکلات در پیش آئیں ،ان ضرورتوں کے حصول میں سر کا ر ان کی امداد کو آئے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ دنیا کے ہر ملک اور ہر خطہ میں ما لی عدم استحکام کی وجہ سے لوگوں کو عام ضروریا ت کے حصول میں طرح طرح کی رکا وٹوں کا سامنا رہتا ہے اور آبادی کا ایک بڑ ا حصہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی غر یب سے غریب تر ہو تا جا رہا ہے ،بنیا دی ضروریا ت کے حصول میں حکو متوں کا رول مزید گہرا ہو تا جا رہا ہے۔ اگر ہم وادی کی بات کریں تو یہاں کئی ایسے مسائل عام انسان کو در پیش ہیں جن سے اْسے روزانہ بنیا دوں پر نبر د آزما ہو نا پڑ رہا ہے۔مہنگائی اور ہر چیز کی بے اعتدال قیمت نے یہاں کے عام انسان کی قوت ِ خر ید کو کا فی حد تک متا ثر کر دیا ہے اور ایسے میں جب مختلف النوع بیما ریوں سے انسان کو پا لا پڑ تا ہے تو صورتحال اور بھی خراب ہو جا تی ہے۔ہما رے یہاں آج کل خال خال ہی کو ئی ایسا گھرانہ دکھتا ہے جہاں گھر کا کوئی نہ کو ئی فرد کسی نہ کسی دائمی مر ض میں مبتلا نہ ہو۔ڈاکٹروں کے نجی کلنکوں سے لے کر ہسپتالوں تک مر یضوں کی لا ئنیں لگی ہو ئی ہو تی ہیں اور یہ با ت بلا خوف ِ تر دید کہی جا سکتی ہے کہ ہر کنبے کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ مختلف امراض کے علا ج اور ادویات کی خریداری پر صرف کر نا پڑ تا ہے۔ایسے میں حکومت نے چند سال پہلے اس با ت کا اعلا ن کیا تھا کہ ’’زندگی کے بچا?‘‘ سے متعلق ادویا ت کی قیمتوں میں کمی کی جائے گی تاکہ ایک عام انسان ،جس کی آمدنی کم ہے ،بھی ضرورت پڑ نے پر یہ ادویا ت بہ آسانی خر ید سکے۔تاہم اگر وادی کے اطراف و اکناف کی با ت کی جا ئے تو یہاں ہر ضروری و غیر ضروری دوا کی مر یضوں سے من ما نی قیمتیں وصول کی جاتی ہیں اور اس حوالے سے حکومت کی جا نب سے جا ری کئے گئے احکامات کو کہیں بھی خاطر میں نہیں لا یا جا رہا ہے۔حکو مت نے اس کی خاطر اگر چہ باضابطہ طور ’’ڈرگ کنٹرول‘‘ نام سے ایک محکمہ بھی قائم کیا ہوا ہے تاہم یہ محکمہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں انجام دینے میں مکمل طور ناکام ہو گیا ہے۔مرکزی سرکار نے اہم ادویات کی قیمتوں میں تخفیف کرنے کا اعلان کیا تھا اورکہا تھا کہ مریضوں کو روزانہ جو ادویات انہیں لینے ہوتی ہے جو کہ اہم قراردی گئی ہیں کی قیمتوں میں کمی لائے جائیگی۔تاہم زمینی سطح پر سرکار کے یہ دعوے ثراب ثابت ہورہے ہیں۔ ضروری ادویات میں ’’بلڈ پریشر‘‘کو قابو کرنے کیلئے دوائی، قلب کے مریضوں کیلئے روز انہ لینے والی ادویات،ذیابطین یعنی ’’بلڈ شوگر‘‘تھائی رائڈاور دیگر عام بیماریوں کو قابو میں رکھنے کیلئے جو ادویات بازاروں سے خریدی جانے والی ادویات کی قیمتوں کو کم کرنے کا مرکزی سرکار نے اعلان کیا تھا لیکن ان ادویات کو غریب مریض مہنگے داموں حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔ سرکاری سطح پر اگرچہ مریضوں کو تمام تر طبی سہولیت مفت فراہم کرنے کا سرکار دعویٰ کرتی رہتی ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو چند ہی ادویات مفت فراہم کی جارہی ہے جن کی بازاروں میں قیمت ’’پیسوں ‘‘میں ہوتی ہے۔ اور جو مہنگی ادویات ہوتی ہے ان کو مریضوں کو بازاروں سے ہی حاصل کرنی پڑرہی ہے۔ اس کے علاوہ دیگر ضروری سامان بھی مریض بازاروں سے ہی حاصل کررہے ہیں۔ ہسپتالوںمیں داخل مریضوں کو ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کے ساتھ ساتھ ادویات ملنے کی بھی امید ہوتی ہے لیکن ہسپتالوں میں جب ان کو ادویات فراہم نہیں ہوتی تو وہ مایوسی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ ادھر عوامی حلقوں نے اس بات کر سخت برہمی کااظہار کیا ہے کہ ہسپتالوں میں علاج و معالجہ کیلئے جانے والے مریضوں کو بازاروں سے ہی ادویات حاصل کرنی پڑرہی ہے جبکہ کئی ادویات جن کو روزانہ کی بنیادوں پر مریضوں کو لینا ہوتا ہے ان ادویات کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے غریب مریض ادویات لینا ہی چھوڑ دیتے ہیں جبکہ دن بھر ایسے غریب جو کماتے ہیں وہ ادویات خریدنے میں ہی خرچ ہوجاتا ہے۔