ڈاکٹر خالد مجید
طبی نگہداشت انسانوں کی بنیادی ضرورت ہے۔بڑھاپے کی کہاوت ہے کہ صحت بڑی دولت ہے ۔ دنیا بھر میں تباہی مچانے والی وبائی کورونا وائرس نے شعبہ صحت کی اہمیت کو سامنے لایا ہے۔ ۔عوام یہ سمجھ گئے ہیں کہ صحت کاشعبہ سب کے لئے انتہائی اہمیت کاحامل ہے ۔ جموں وکشمیر کا شعبہ صحت تقریباً ہر لحاظ سیپیچھے تھا اور تباہی کا شکار تھا۔ اب دفعہ 370کی منسوخی کے بعد حکومت ہند نے حکومت جموں وکشمیر کے ساتھ مل کر عالمی معیار کے اسپتال قائم کرنے کا آغاز کردیا ہے۔
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صحت کی دیکھ بھال کی سہولیات فراہم کرنے کامعیاری ادارہ ہے ۔ اب یہ ایک عالمی برانڈ بن گیا ہے ۔
حکومت نے ہندوستان میں صحت عامہ کے اعلیٰ طبی اداروںکاایک گروپ تشکیل دینے کے لئے اقدامات کئے ہیں جو معیاری طبی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ لاکھوں مریضوں کو دیکھ بھال کی بہترین خدمات فراہم کرنے میں پیش پیش رہیں گے ۔ پورے ملک میں ایمز جیسے اداروں کے قیام کے سلسلے میں سانبہ ضلع کے وجے پور قصبے میں اسی باوقار انسٹی ٹیوٹ کے قیام کیساتھ اب یہ وراثت جموں و کشمیر کے لو گوں کی دہلیز پر پہنچ گئی ہے ۔ دو میں سے پہلا سابقہ ریاست جموں وکشمیر بشمول لداخ خطہ کے لئے تجویز کیا گیا ہے۔
جموں وکشمیر کے لوگوں نے اس پیش رفت کا دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ ادھرکچھ عرصہ قبل ہمیں معلوم ہواہے کہ ایمز اونتی پورہ کو مرکز نے 2019میں 1828کروڑ روپے کی لاگت پر تعمیر کرنے کو منظوری دی تھی۔
مزید برآں ، طلبا کے پہلے بیچ کو اس سال ایمز کے لئے آنے والے NEET-UGمیں داخلہ دیا جائے گا۔ انسٹی ٹیوٹ کشمیر کے اسپتالوں میںموجودہ گنجائش میں 1000بستروں کا اضافہ کرے گاجس میں 300سپر اسپیشلٹی بیڈ بھی شامل ہیں۔ پروجیکٹ میں 100طلباء کی گنجائش والا میڈیکل کالج اور 60طلباء کی گنجائش والا نرسنگ کالج بھی شامل ہے۔
ماہرین نے رائے دی ہے کہ ایسے طبی ادارے نہ صرف شہریوںکو بہتر طبی سہولیات فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے بلکہ اس کے نتیجے میں ملک میں طبی نشستوں اور ڈاکٹروں کی مجموعی تعداد میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ دیہی طبی نگہداشت جو کسی بھی خطے کے صحت کے شعبے کادل اور نبض ہوتی ہے حکومت کی طر ف سے اسے بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ جموں وکشمیر کی حکومت دیہی طبی نگہداشت کی سہولیات کو بہتر بنانے کے لئے متعدد اقدامات کر رہی ہے۔
کشمیر مانیٹر کے اعداد شمارمیں انکشاف ہواہیکہ گزشتہ چار سالوں سے 2224ہیلتھ اینڈ ویلنس سینٹر ز قائم کئے گئے ہیں۔
رواں سال کے آخر تک جموں وکشمیر انتظامیہ 2742مراکز قائم کرنے کا ہدف حاصل کرلے گی۔ اس کے علاوہ گزشتہ پانچ سالوں میں دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچے کو بڑھانے کے لئے نیشنل رورل ہیلتھ مشن کے تحت مرکز نے 2897.27کروڑ روپے کی فنڈنگ جاری کی گئی ہے ۔
جموں وکشمیر کی حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے ایک حالیہ قدم میں جس کا مقصد جموں وکشمیر کے صحت کے شعبے میں انقلاب برپا کرناہے۔ اس اقدام کے تحت جموں وکشمیر کے محکمہ صحت اور طبی تعلیم نے ڈاکٹروں
اور پیرامیڈیکل سٹاف کے تمام اٹیچمنٹوں کو منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ یہ قدم عام لو گوں کے لئے صحت کی بہتر سہولیات یقینی بنانے اور دیہی علاقوں میںطبی نگہداشت کی سہولیات کوبہتربنانے کے لئے اٹھایا گیا ہے۔
یہ حکمنامہ جموں وکشمیر کے پرنسپل سیکریٹری ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن HMEمنوج کمار دویدی نے جاری کیا ہے۔ یہ اقدام اسلئے اٹھایا گیا کیونکہ ڈاکٹروں اورنیم طبی عملے کے بارے میں معلوم ہواہے کہ انکو ایک مقررہ جگہ پر تعینات کیا جاتاہے اور پھر کسی اور جگہ سے منسلک کیا جاتاہے جس نے جموں وکشمیر کی دیہی علاقوں کی طبی نگہداشت کے شعبہ کو ڈھٹائی سے نقصان پہنچایا ہے۔ صحت عاملہ کی دیکھ بھال کو بہتر بنانے اور جموں وکشمیر میں عالمی معیار کے اسپتالوں کی تشکیل دونوں اصلاحات سے لو گ پوری طرح خوش ہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ بات اہم اور خوش آئند ہے کہ پہلے جموں وکشمیر میں صرف چار میڈیکل کالج تھے ۔ آج سات نئے میڈیکل کالج قائم کئے گئے ہیں۔ پہلے صرف 500میڈیکل سیٹیں تھیں اب جموں وکشمیر سے 2000طلباء ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرسکتے ہیں۔
جموں وکشمیر حکومت نے دفعہ 370کی منسوخی کے بعد یہ بات پوری طرح واضح کردی ہے کہ دیہی سطح پر طبی نگہداشت کو بہتر بنانا اور جموں وکشمیر میں عالمی معیار کے اسپتال قائم کرنا جموں وکشمیر کے صحت کے شعبے کو صحیح سمت میں لے جانے کا اہم منتر ہے اور عوام اس سے بہت خوش ہیں ۔