تحریر :پروفیسر جی ایم اطہر
انگریزی سے ترجمہ: سید اعجاز
جنوبی کشمیر کے سب ضلع ترال کے ناگہ بل میں ایک صوفی بزرگ ملک امان اللہؒ کے آستان شریف کی تازہ ترین تصویر دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی۔ چونکہ میں نے اپنی زندگی کے ابتدائی اٹھارہ(18) سال اس زیارت شریف سے صرف نصف کلومیٹر دور اپنے آبائی گاﺅں میں گزارے ہیں، اس لیے میں اس خوبصورت علاقے میں بدلتی ہوئی ماحولیاتی اور ثقافتی زندگی کا گواہ ہوں۔ اس جگہ کا نام ناگہ بل اس لئے دیا گیا ہے کیوںکہ زیارت کے مشرقی جانب تازہ پانی کا ایک بڑا چشمہ ہے۔ اس سے پہلے کہ جموں و کشمیر حکومت کے متعلقہ محکمے نے 1980 کی دہائی کے اوائل میں ناگہ بل چشمہ سے نصف کلو میٹر سے کم دور پانی کے ذخیرے کی تعمیر کی، تاکہ نچلی ندی کے بستیوں اور باقی دیہات میں رہنے والے لوگوں کو پینے کے لیے پانی فراہم کیا جا سکے۔ جب میں 1969 سے 1973 تک گورنمنٹ پرائمری اسکول ناگہ بل، ترال کا طالب علم تھا تو ہم اس چشمے کے کنارے، خاص طور پر گرمیوں کے موسم میں ”لان “میں دستیاب درختوں کے سائے میں”رسس‘ کا وقت گزارا کرتے تھے۔ اس کے تین اطراف میںچشمہ ،زیارت اور مسجدشریف موجود ہے۔ زیارت کے پچھلے طرف میںسوشل فارسٹری درختوں کی اچھی خاصی تعداد نسبتاً ایک حالیہ واقعہ ہے۔
تیسری عید الاضحی کی شام کو منایا جانے والا مقامی تہوار امان صاحب کا عرس علاقے کے لوگوں کے لیے ایک خاص موقع ہوا کرتا تھا۔ گاوں ناگہ بل کے لڑکے انگور کے درختوں کی چھالیں اکٹھا کر کے روئی میں ڈالتے تھے۔ زیارت کے سامنے کچھ فاصلے پر درختوں کے ساتھ دونوں سروں پر بندھی لمبی رسیوں پر (پوچ) چھوٹی قسم کی گھتیاں لٹکاتے تھے اور غروب آفتاب کے بعد شام کے وقت ان چھوٹے چھوٹے گتھیوںکے کونوں کو آگ لگا دی جاتی تھی تاکہ گھنٹوں تک مسلسل چنگاریاں ان سے نکل سکیں۔اور ملحقہ دیہاتوں سے دکاندار چوڑیاں، مٹھائیاں، پھل، کھلونے، اور بچوں اور خواتین کے لیے دلچسپی کا دیگر سامان لے کر آتے تھے تاکہ جشن کے چند گھنٹوں کے لیے ہلچل مچ جائے۔ شادی شدہ بیٹیوں اور ان کے سسرال والوں کا مقامی والدین اور بہن بھائیوں کی طرف سے میلے میں شرکت اور مہمانوں کے لیے دن بھر خصوصی پکوانوں کی تیاری ملحقہ بستیوں میں رہنے والے خاندانوں کے لیے امان صاحبؒ کے عرس کی خاص خصوصیت ہوا کرتی تھی۔
مذہبی نقطہ نظر سے دن کے اوقات میں نماز کی ادائیگی خاص طور پر مغرب اور عشاءنماز کے ساتھ ساتھ امان صاحب کے تبرکات کی نشان دہی عرس کی خصوصی رسومات میں سے تھے۔ مرحوم انور بابا زائرین کو "باپتِ تیمیر” کہتے تھے، زیارت کی اگلی کھڑکی پر اپنے سامنے رکھے بکس میں کچھ رقم ڈالنے کو کہتے تھے۔ زائرین اس مقصد کے لیے سکے اور کاغذی نوٹ بھی دیتے تھے۔بدقسمتی سے، تہوار کے اختتام کے فوراً بعد ایک سال رات گئے آگ لگنے سے چند رہائشی مکانات تباہ ہو گئے، جس نے انگور کے درختوں کی چھالوں کو جلانے کا کام بند کر دیا تاکہ گھنٹوں طویل شام کے تہوار کے دوران چنگاریاں پیدا ہو سکیں۔ دریں اثنا، 1970 کی دہائی کے وسط میں ناگہ بل گاو¿ں میں بجلی کی سپلائی پہلی بار پہنچائی گئی اور لوگوں کو پورے جوش و خروش کے ساتھ تہوار منانے کے لیے بجلی سپلائی عرس کے دوران یہاں روشن کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے لیمپوں کا استعمال کیا گیا ہے ۔
(مضمون نگار( ایم ایم اے جی اکاڈمی آف انٹر نیشنل سٹیڈیز جامع ملیہ اسلامیہ نیو دہلی ڈائر ایکٹر)