آئیے۔۔۔۔۔اپنے ایمان کا جائزہ لیں۔
معراج زرگر۔
غیرت عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے مفہوم میں اہل زبان دو باتوں کا بطور خاص ذکر کرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی ناگوار بات دیکھ کر دل کی کیفیت کا متغیر ہو جانا اور دوسرے یہ کہ اپنے کسی خاص حق میں غیر کی شرکت کو برداشت نہ کرنا ان دو باتوں کے اجتماع سے پیدا ہونے والے جذبات کا نام "غیرت” ہے۔
غیرت کو جمہور علماء نے ایمان سے تعبیر کیا ہے اور اکثر ایمان کا دوسرا نام غیرت ہی سے تعبیر کرتے ہیں۔ چناچہ دینی حمیت اور غیرت کا اطلاق ایک مومن یا مسلمان کی ہر ہر چیز پہ ہوتا ہے لیکن موضوع کی طوالت کو مدِ نظر رکھ کر ایک ہی مسئلے پر چند الفاظ لکھنے کی کوشش کریں گے۔
ایک روایت میں ہے,
"حدثنا موسى، حدثنا ابو عوانة، حدثنا عبد الملك، عن وراد كاتب المغيرة، عن المغيرة، قال: قال سعد بن عبادة:” لو رايت رجلا مع امراتي لضربته بالسيف غير مصفح، فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اتعجبون من غيرة سعد، لانا اغير منه، والله اغير مني”.
"ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک نے بیان کیا، ان سے مغیرہ کے کاتب وراد نے، ان سے مغیرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھ لوں تو سیدھی تلوار کی دھار سے اسے مار ڈالوں۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "کیا تمہیں سعد کی غیرت پر حیرت ہے۔ میں ان سے بھی بڑھ کر غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیرت مند ہے۔”
امام احمد بم حنبل ایک روایت نقل کرتے ہیں,
"حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"تین آدمی ایسے ہیں۔جن پر اللہ نے جنت کو حرام کر دیا ہے۔ دائمی شرابی،ماں باپ کا نافرمان،اور "دیوث” جو اپنے بیوی بچوں میں بے حیائی برداشت کرتا ہے”(مسند احمد ح 5349۔)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ قیامت کے دن نظررحمت نہیں فرمائے گا:
1. والدین کا نافرمان 2. مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت 3. دیوّث۔ ‘‘ (سنن النسائی: 2563)
شرعی اصطلاح میں ’دیوث ‘‘ اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے گھر میں فحاشی اور غلط روش کودیکھتا ہے اور خود کو اس سے قطع تعلق کرتا ہے یعنی اپنے گھر میں یا آس پاس بے حیائی کے عمل سے غیرت نہیں جاگتی۔
اس بنیاد پر جو شخص ان روایت کو دیکھے گا تو اس میں دیوث کے لفظ کا اطلاق ہراس شخص پرہوگا جو اپنے کسی بھی ماتحت کے بارے میں خباثت کا اقرارکرے، چاہے اس کی بیوی ہو، بیٹی ہو، بہن ہو یا اس کے علاوہ کوئی بھی۔
واضح رہے کہ انسان کا کسی برائی کے تعلق سے خاموش رہنا بہرحال حرام ہے، چاہے وہ برائی اپنے گھر میں ہو یا کسی دوسرے کے گھرمیں، البتہ اپنے ماتحتوں کی برائی کے انکار سے خاموشی اختیار کرنا زیادہ برا ہے، اور بڑا گناہ ہے، کیونکہ وہ ان کا مکمل ذمہ دار ہے، اب چاہے اس خاموشی کو دیوثی کا نام دیا جائے یا نہ دیا جائے، وہ ہر حال میں منکر ہے، آیات اور احادیث اس عمومیت پر دلالت کرتی ہيں۔
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ حمیتِ ایمانی اور غیرتِ مسلمانی کا جنازہ نکلا ہوا ہے۔
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتا ہے
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
اگر دنیامیں مسلمانوں کازوال ہوا ہے تو اس کا سبب دولت کی کمی نہیں بلکہ کچھ اور ہے جسے تم خوب سمجھتے ہو۔ اور وہ ہے بےغیرتی۔
ایک جگہ اقبال لکھتے ہیں :
تا کجا بے غیرتِ دیں زیستن
اے مسلمان! مُردن است ایں زیستن
(یعنی غیرتِ دین کے بغیر زندگی کہاں تک ممکن ہے اے مسلمان۔ یہ زندگی نہیں بلکہ موت ہے۔)
دیوثیت کا یہ عالم ہے کہ ایک استاد, ایک باپ, ایک بھائی, ایک مسلمان عہدے دار اپنے سامنے اپنی بیٹیوں کے ٹھمکے لگواتا ہے۔ ایسی ایسی دل ہلا دینے والی اور غیرت کا ستیاناس کردینے والی حرکات کرواتا ہے اور عار بھی محسوس نہیں کرتا۔ ایک ماں اور ایک باپ فخر کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی نے غیر اخلاقی اور غیر تہذیبی اور غیر اسلامی حرکت کرکے دو روپیے کا انعامی کاغذ حاصل کیا ہے۔ دیوثیت اور بے حمیتی کا اس قدر زور ہے کہ ایک بھائی یا ایک باپ بہ نفس نفیس اور بذات خود شادیوں میں, پکنک پر, پروگراموں میں اپنی بیوی, بیٹی یا بہن کی تصور کشی کرکے اسے سوشل میڈیا پر ڈال کر خوش ہو رہا ہوتا ہے۔ اور تو اور غیر اور نا محرم افراد بہنوں بیٹیوں کی تصویریں لے رہے ہوتے ہیں اور باپ اور بھائی کو کوئی اعتراض نہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اپنے بچوں خاص کر بچیوں کو غیر ماحول اور مشتبہ ماحول سے دور رکھئے۔ تعلیم ضروری ہے مگر تعلیم کی آڑ میں جو بے حیائی اور لچر پن ہمارے بچوں کے اذہان و قلوب میں انجیکٹ ہو رہا ہے, وہ ناسور کی طرح پھیل رہا ہے۔ ناسور کا کوئی علاج نہیں۔ قیامت کی نشانیاں پوری ہو رہی ہیں۔ اپنے گھروں کی رکھوالی احسن طریقے سے کیجئے۔ گھروں میں سے غیرت کا جنازہ نکل رہا ہے اور دیوثیت اپنے پیر جما چکی ہے۔ اللہ کا غضب نازل ہو چکا ہے۔ بچی کھچی ایمان کی عمارت کو مزید زمین بوس ہونے سے بچائیے۔ اور بہترین عمل اپنے گھروں کی حفاظت ہے۔ وما توفیقی الا باللہ۔